بی بی سی اردو سے: فن لینڈ میں نو سو مجرموں کے ڈی این اے کے تجزیے سے پرتشدد جرائم سے وابستہ دو جین سامنے آئے ہیں۔
جن لوگوں میں یہ جین پائے جاتے ہیں ان میں بار بار پرتشدد جرائم کرنے کا رجحان عام لوگوں کے مقابلے پر 13 گنا زیادہ ہوتا ہے۔
مالیکیولر سائیکیٹری نامی جریدے میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے مصنفین کا کہنا ہے کہ فن لینڈ میں ہونے والے کم از کم پانچ تا دس فیصد پرتشدد جرائم کے ذمے دار یہ جین ہیں۔
تاہم انھوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ان جینز کی سکریننگ سے مجرموں کا سراغ نہیں لگایا جا سکتا۔
پرتشدد طرزِعمل میں ممکنہ طور پر کئی جین ملوث ہو سکتے ہیں اور اس کے علاوہ ماحول بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔
تحقیق کے مرکزی مصنف جاری تیہونن نے کہا: ’تاہم جن لوگوں میں یہ جین موجود ہوتے ہیں ان کی اکثریت کوئی جرم نہیں کرتی۔‘
انھوں نے بی بی سی کو بتایا: ’عام آبادی میں سنگین اور پرتشدد جرائم کرنے والوں کی تعداد انتہائی قلیل ہوتی ہے۔ اس لیے ایسے لوگوں سے وابستہ خطرہ بہت کم ہوتا ہے۔‘
اپنی نوعیت کی اس پہلی تحقیق تقریباً نو سو مجرموں کا جائزہ لیا گیا۔
ہر مجرم کا ان کے جرائم کی بنیاد پر ایک خاکہ تیار کیا گیا جس میں انھیں پرتشدد یا غیرپرتشدد قرار دیا گیا۔ ان میں سے 78 ایسے ’انتہائی پرتشدد مجرم‘پائے گئے جن کے طرزِ عمل اور جینز میں تعلق سب سے مضبوط تھا۔
اس گروپ نے 1154 قتل، اقدامِ قتل یا مارپیٹ جیسے جرائم کیے تھے۔
ان سب میں MAOA جین کی ایک قسم موجود تھی، جسے اس سے قبل ہونے والی تحقیق میں ’جنگجو‘ جین کہا گیا تھا کیوں کہ اس کا تعلق جارحانہ رویے سے ہے۔
اس کے علاوہ ایسے لوگوں میں ایک اور جین کی ایک قسم بھی پائی گئی جسے CDH13 کہا جاتا ہے۔ اس جین کو سابقہ تحقیق میں منشیات کے استعمال اور توجہ میں کمی کی بیماری ADHD میں ملوث پایا گیا ہے۔
جن لوگوں کو ’غیر پرتشدد‘ کے زمرے میں ڈالا گیا تھا ان میں ان اقسام کے جین موجود نہیں تھے۔
کسی نہ کسی حد تک ہم سبھی جینیات اور ماحول کی پیداوار ہیں، لیکن میں نہیں سمجھتا کہ اس سے ہم میں شخصی خود مختاری یا غلط اور صحیح کی تمیز ہی ختم ہو جاتی ہے۔
سٹیٹسن یونیورسٹی کے کرسٹوفر فرگیوسن
فن لینڈ میں پرتشدد جرائم کرنے والے اکثر مجرم نشے کی حالت میں ہوتے ہیں۔
پروفیسر تیہونن نے کہا کہ کسی شخص کی جینیاتی معلومات کو عدالتی کارروائی پر اثرانداز ہونے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
انھوں نے کہا: ’ایسی بہت سی چیزیں ہیں جو افراد کی ذہنی صلاحیت پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ کیا کوئی شخص اپنے فعل کے نتائج کو سمجھتا ہے یا نہیں اور کیا وہ اپنے رویے پر قابو پا سکتا ہے۔‘
امریکی ریاست فلوریڈا کی سٹیٹسن یونیورسٹی کے کرسٹوفر فرگیوسن اس سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ’ایک یا دو جین کسی کو مجرم نہیں بناتے۔ کسی نہ کسی حد تک ہم سبھی جینیات اور ماحول کی پیداوار ہیں، لیکن میں نہیں سمجھتا کہ اس سے ہم میں شخصی خود مختاری یا غلط اور صحیح کی تمیز ہی ختم ہو جاتی ہے۔‘
إرسال تعليق