نیویارک کے ایک پولیس آفیسر کے بارے میں مشہور تھا‘ وہ جس کیس کو ہاتھ ڈالتا تھا‘ مجرم پکڑے جاتے تھے‘ وہ کیسوں کی ننانوے فیصد گتھیاں سلجھا لیتا تھا‘ وہ ریٹائر ہوا تو پولیس ڈیپارٹمنٹ نے ’’فیئر ویل‘‘ کا بندوبست کیا‘ پولیس آفیسر کی خدمات کا اعتراف کیا گیا اور آخر میں اس سے کامیابی کا گر پوچھا گیا‘ وہ مائیک پر آیا‘ مسکرایا اور پولیس سروس کے لوگوں سے مخاطب ہوا ’’میں جب بھی کوئی کیس لیتا تھا‘ میں پولیس مین کے بجائے مجرم بن کر سوچتا تھا اور کیس کا سرا میرے ہاتھ آ جاتا تھا‘‘ اس کا کہنا تھا ’’پولیس کے زیادہ تر آفیسر کرائم سین پر پولیس مین بن کر جاتے ہیں۔ یہ قانون کی کتاب سر پر رکھ کر مجرم تلاش کرتے ہیں اور ناکام ہو جاتے ہیں جب کہ میں جب بھی کرائم سین پر جاتا تھا‘ میں اپنے آپ کو چور سمجھتا تھا‘ میں ڈاکو‘ قاتل اور ریپسٹ بن جاتا تھا‘ چند لمحوں کے لیے سائیڈ پر کھڑا ہو کر یہ سوچتا تھا میں نے اگر یہ واردات کی ہوتی تو میں یہ جرم کیسے کرتا‘ میں اس کرائم سین پر کیا کیا غلطیاں کرتا‘ میں جوں ہی مجرم بن کر کرائم سین کو دیکھتا ‘ میرے ذہن میں واردات کی پرتیں کھل جاتیں‘‘ اس کا کہنا تھا ’’آپ اگر کوئی کیس حل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کبھی پولیس آفیسر بن کر نہ جائیں‘ آپ خود کو مجرم کی جگہ رکھ کر دیکھیں‘ آپ کو سارا معاملہ سمجھ آ جائے گا‘‘۔
دنیا کے معاملات دیکھنے کے درجنوں طریقے ہیں اور ان درجنوں طریقوں میں سے ایک طریقہ یہ بھی ہے‘ آپ ایشو کو لکیر‘ میز اور میدان کے دوسری طرف کھڑے لوگوں کی نظر سے دیکھیں‘ آپ اپنی پوزیشن سے اٹھ کر چند لمحوں کے لیے مطالبہ کرنے والوں کے ساتھ کھڑے ہو جائیں‘ آپ کو معاملہ بھی سمجھ آ جائے گا اور آپ حل پر بھی پہنچ جائیں گے‘ میاں نواز شریف‘ عمران خان اور علامہ طاہر القادری کے درمیان معاملات کے الجھاؤ کی بڑی وجہ یہ بھی ہے‘ یہ تینوں اپنی اپنی پوزیشن سے دوسرے کو دیکھ رہے ہیں چنانچہ انھیں یہ ضدی‘ انا پرست‘ سپائلر‘ مجرم اور غیر جمہوری نظر آ رہا ہے‘ علامہ طاہر القادری اور عمران خان میاں نواز شریف کو اپنے اعتراضات اور مطالبات کی عینک سے دیکھتے ہیں لہٰذا میاں نواز شریف انھیں بدعنوان‘ کرپٹ‘ دھاندلی کی پیداوار اور اسٹیٹ رسک دکھائی دیتے ہیں۔
میاں نواز شریف ان دونوں کو اپنے زاویئے سے دیکھتے ہیں لہٰذا یہ انھیں نادان اور ظالم لگتے ہیں‘ یہ تینوں اگر پوزیشن بدل لیں‘ یہ ایک‘ دوسرے اور تیسرے کی جگہ بیٹھ کر معاملات کو دیکھیں تو مجھے یقین ہے‘ یہ معاملات کو سمجھ بھی جائیں گے اور یہ حل بھی نکال لیں گے‘ میاں نواز شریف کسی دن عمران خان اور علامہ طاہر القادری کے تمام مطالبات منگوائیں‘ وزیراعظم چند لمحوں کے لیے عام پاکستانی بنیں اور تمام مطالبات کا مطالعہ کریں‘ مجھے یقین ہے یہ عمران خان اور علامہ طاہر القادری کے خیالات سے اتفاق پر مجبور ہو جائیں گے‘ ملک میں واقعی کسی شہری کو انصاف نہیں مل رہا‘ عوام کو ایف آئی آر کے لیے دھرنے دینے پڑتے ہیں یا پھر نعشیں سڑک پر رکھ کر ٹریفک بلاک کرنی پڑتی ہے‘ مقتول کے لواحقین انصاف تک پہنچنے کے لیے ساری زمین جائیداد سے محروم ہو جاتے ہیں‘ ملک میں لوگ ٹیکس نہیں دیتے‘ آپ جتنے طاقتور ہوتے جاتے ہیں آپ اس ملک میں اتنے ہی ظالم‘ اتنے ہی چور بن جاتے ہیں۔ پارلیمنٹ میں تقریروں کے سوا کچھ نہیں ہوتا اور حقیقتاً ملک کے اٹھارہ انیس کروڑ بے بس لوگوں کا کوئی وارث نہیں‘ میاں صاحب عام آدمی بن کر چند لمحوں کے لیے دھرنے والوں کی بات سن لیں‘ یہ مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا‘ میاں صاحب چند لمحوں کے لیے ’’میں اگر عمران خان ہوتا‘‘ بن جائیں‘ یہ معاملات کو سلجھا لیں گے‘۔
میرا مشورہ ہے حکومت اعلان کر دے‘ پاکستان میں ایک سال کے اندر ایف آئی آر آن لائن ہو جائے گی‘ ملک کا کوئی بھی شہری کسی بھی وقت کوئی بھی ایف آئی آر کروا سکے گا‘ پولیس ابتدائی تفتیش میں اس ایف آئی آر کے جینوئن یا نان جینوئن ہونے کا فیصلہ کرے‘ ایف آئی آر اگر غلط ہوئی تو درج کروانے والے کے خلاف کارروائی کی جائے اور اگر یہ درست ہو تو پولیس تفتیش کرے‘حکومت پولیس سے صرف تفتیش کا کام لے یہ اسے سیکیورٹی ڈیوٹیوں اور لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال سے باہر نکالے‘ سیکیورٹی ڈیوٹی رینجرز‘ ایف سی اور فوج سے کروائی جائے۔ حکومت عدلیہ کے ساتھ مل کرجوڈیشل ریفارمز کرے‘ قانون بنائے ملک میں کوئی بھی کیس سال سے زیادہ نہیں چلے گا‘ جج سال کے اندر فیصلے کا پابند ہوگا‘ ڈاکہ‘ زنا اور قتل ریاست کے خلاف جرم سمجھا جائے گا اور مقدمہ مقتول کے بجائے ریاست لڑے گی‘ حکومت مان لے ہم پرانے اداروں کو ٹھیک نہیں کرسکتے‘ ہمیں موٹرویز پولیس کی طرح نئے ادارے بنانے چاہئیں‘ پنجاب گیارہ کروڑ لوگوں کا صوبہ ہے‘ ایک آئی جی اور ایک پولیس پورے صوبے کوکنٹرول نہیں کرسکتی‘ آپ پولیس کو تیس چالیس یونٹوں میں تقسیم کردیں‘ اسلام آباد کی پولیس کو صوبوں میں تقسیم کر دیں اور وفاق کے لیے نئی اور جدید کیپیٹل پولیس بنائیں‘ یہ پولیس بین الاقوامی سطح کی ہو‘لاہور کے لیے لاہور پولیس‘ ملتان کے لیے ملتان پولیس اور فیصل آباد‘ سیالکوٹ اور ڈی جی خان کے لیے بھی الگ فورس بنائی جائے اور یہ فورسز خودمختار اور آزاد ہوں‘۔
سندھ‘ بلوچستان اور کے پی کے میں بھی علاقوں کے مطابق الگ الگ فورس بنائی جائے۔ ریلوے اور پی آئی اے بھی ٹھیک نہیں ہو سکیں گے‘ آپ پرانے ریلوے کے ساتھ نیا ریلوے بنائیں‘ پرانی پی آئی اے کے ساتھ ماڈرن پی آئی اے بنائیں‘ پرانے اداروں میں نئی بھرتیاں نہ کریں‘ نئے اداروں میں نئے لوگ بھرتی کرتے رہیں‘ پرانے اداروں کے لوگ آہستہ آہستہ ریٹائر ہو جائیں گے اور نئے ادارے پرانے اداروں کو ’’ٹیک اوور‘‘ کرتے رہیں گے‘ ٹیکس کا نظام بھی فرسودہ ہوچکا ہے‘ ایف بی آر کے لوگ کام نہیں کرتے‘ آپ انکم ٹیکس کی پوری اسٹیبلشمنٹ نئی بنا دیں‘ اس میں تمام لوگ نئے ہوں‘ یہ لوگ خود مختار بھی ہوں اور آزاد بھی اور یہ ملک کے کسی بھی شخص کو کسی بھی وقت گرفت میں لے سکتے ہوں اور کوئی شخص یا کوئی ادارہ ان کا راستہ نہ روک سکے‘۔
پاکستان کی آبادی کا 60 فیصد نوجوانوں پرمشتمل ہے‘ یہ نوجوان آگ کا گولہ ہیں‘ یہ ہر وقت تخریبی کارروائی کے لیے تیار رہتے ہیں‘ یہ تین مسائل کا شکار ہیں۔ ملک میں ان کے لیے گراؤنڈز اور جم نہیں ہیں‘ ان کے لیے کوئی انٹرٹینمنٹ نہیں اور ملک میں نوکریوں کی شرح بھی بڑی تیزی سے گر رہی ہے‘ آپ فوری طور پر ان تینوں معاملات کے لیے پالیسی بنائیں‘ آپ ملک بھر میں اسپورٹس کو فروغ دیں‘ کھیل کے میدان اور جم بنوائیں‘ ملک میں فلم سازی کی صنعت دوبارہ سر اٹھا رہی ہے‘ آپ اسے گود لے لیں‘ پاکستان میں سال میں کم از کم 50 بڑی فلمیں بنیں‘ پاکستان میں سینما اور موسیقی کی واپسی بہت ضروری ہے‘ آپ اس کے لیے کام کریں‘ آپ روزگار کے لیے ایسی پالیسیاں بنائیں جن سے ملک میں سرمایہ کاری ہو‘ لوگ کمپنیاں‘ فرمیں اور ادارے بنائیں‘ کارخانے لگیں‘ تجارت شروع ہو‘ آئی ٹی کی فرمیں بنیں‘ سروسز کا سیکٹر مضبوط ہو‘ نئی مارکیٹیں بنیں‘ بینک نوجوانوں کو بزنس لون دیں‘ اس سے نوکریاں پیدا ہوں گی‘ نوجوانوں کو کام ملے گا‘ یہ ایکسرسائز بھی کریں گے اور ہلہ گلہ کر کے خوش بھی ہوں گے اور یہ تخریبی کارروائیوں کے بجائے تعمیری سرگرمیوں کی طرف متوجہ ہوں گے‘اس کے نتیجے میں یہ دھرنوں اور کنٹینرز کا پیچھا چھوڑ دیں گے‘ یہ ڈنڈوں پر کیل لگانا بند کر دیں گے اور یہ شیشے اور گاڑیاں بھی نہیں توڑیں گے‘ یہ ملک بچ جائے گا۔
میاں نواز شریف اگر چند لمحوں کے لیے عمران خان اور علامہ طاہر القادری بن کر سوچیں تو مجھے یقین ہے یہ اپنے اثاثے ڈکلیئر کرتے دیر نہیں لگائیں گے‘ یہ لندن میں موجود ذاتی پراپرٹی بھی فروخت کر کے پیسے پاکستان لے آئیں گے‘ یہ رائے ونڈ کے سفید محل کے بجائے کسی چھوٹی رہائش گاہ میں بھی شفٹ ہو جائیں گے‘ یہ ہفتے میں تین دن لاہور میں رہنے کی روٹین بھی بدل دیں گے‘ یہ سادگی اختیار کریں گے‘ سرکاری جہاز لے کر دوروں پر نہیں جائیں گے‘ یہ وزیراعظم ہاؤس اور ایوان صدر کے اخراجات بھی کم کر دیں گے اور یہ عوام کو وقت بھی دیں گے‘ حکومت کے وزراء بھی دفتروں اور لاجز کے بجائے عوام میں دکھائی دیں گے‘ یہ محکموں کی ازسر نو تعمیر شروع کریں گے‘یہ مہنگائی کا کوئی مستقل حل تلاش کریں گے‘ یہ صحت اور تعلیم کی بنیادی سہولتوں پر توجہ دیں گے۔ یہ کرپشن روکنے کا مضبوط سسٹم بھی بنائیں گے اور یہ عمران خان اور علامہ طاہر القادری کے دھرنوں کی ناکامی کو اپنی فتح نہیں سمجھیں گے‘ یہ اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مہلت قرار دیں گے اور گہری نیند سے جاگ کرعوام کی خدمت میں جت جائیں گے‘ میاں صاحب اگر چند لمحوں کے لیے عمران خان اور علامہ طاہر القادری بن جائیں تو یہ دل سے مان لیں گے.
علامہ اور خان صاحب حکومت کے پیندے میں سوراخ کر چکے ہیں‘ حکومت کے بدن سے اب اختیار اور اقتدار تھوڑا تھوڑا زمین پر گرتا رہے گا‘ عمران خان اور علامہ طاہر القادری نظام کو کمزور اور بدعنوان بھی ثابت کر چکے ہیں‘ یہ نظام اب زیادہ دیر اپنے قدموں پر کھڑا نہیں رہ سکے گا چنانچہ میاں صاحب کو آگے بڑھ کر نیا نظام بنانا ہوگا یا پھر اس فرسودہ نظام کو مکمل طور پر تبدیل کرنا ہو گا‘ میاں صاحب نے اگر یہ نہ کیا‘ یہ اگر چند لمحوں کے لیے ’’میں اگرعمران خان ہوتا‘‘ نہ بنے تو پھر میاں صاحب اور ملک دونوں خدا حافظ ہو جائیں گے۔
میری عمران خان اور علامہ صاحب سے بھی درخواست ہے‘ آپ بھی چند لمحوں کے لیے ’’میں اگر نواز شریف ہوتا‘‘ بن جائیں‘ مجھے یقین ہے آپ کو بھی چیزیں اتنی خراب نہیں لگیں گی جتنی آپ کو یہ کنٹینروں کی چھت سے دکھائی دے رہی ہیں۔
اشاعت ڈیلی ایکسپریس 02 اکتوبر 2014
إرسال تعليق