جہادی ’مشترکہ دشمن‘ ہیں، اوباما کا خامنہ ای کو خط
امریکی صدر باراک اوباما نے ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو ایک خفیہ خط میں کہا ہے کہ اگر تہران کے متنازعہ پروگرام پر ڈیل طے پا جاتی ہے تو اسلامک اسٹیٹ کے خلاف مشترکہ کارروائی پر بات چیت ہو سکتی ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے جمعرات کو سفارتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ امریکی صدر باراک اوباما نے گزشتہ ماہ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو ایک خفیہ خط ارسال کیا تھا، جس میں اسلامک اسٹیٹ کے خلاف ممکنہ مشترکہ کارروائی کا تذکرہ تھا۔
وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق ایرانی مذہبی رہنما کو روانہ کیے گئے اس خط کے بارے میں صدر اوباما نے اپنے قریبی ساتھیوں کو اعتماد میں بھی لیا تھا۔ اس خط میں اوباما نے ان جہادیوں کے خلاف کارروائی کو ایران اور امریکا کی ایک ’مشترکہ جنگ‘ قرار دیا تھا۔
ایران میں 1979ء کے اسلامی انقلاب کے بعد تہران میں قائم امریکی سفارتخانے پر دھاوا بول دیا گیا تھا
یہ امر اہم ہے کہ ایران میں 1979ء کے اسلامی انقلاب کے بعد تہران میں قائم امریکی سفارتخانے پر طالب علموں اور کٹر نظریات کے حامل دیگر افراد کے 444 دنوں کے محاصرے کے بعد واشنگٹن نے ایران سے اپنے سفارتی تعلقات ختم کر دیے تھے۔
اگرچہ امریکی حکومت ایران پر الزام عائد کرتی ہے کہ یہ شیعہ اسلامی ملک دہشت گردوں کی معاونت کرتا ہے تاہم واشنگٹن میں اس کے باوجود ایسے خیالات پائے جاتے ہیں کہ شام اور عراق میں فعال اسلامک اسٹیٹ اور دیگر سنی شدت پسند گروہوں کے خلاف جاری عالمی کارروائی میں ایک اہم فریق ثابت ہوتے ہوئے قیام امن میں کردار ادا کر سکتا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان جوش ایرنسٹ نے اوباما کی طرف سے خامنہ ای کو ارسال کیے گئے خط کے بارے میں تبصرہ کرنے پر انکار کرتے ہوئے صرف اتنا ہی کہا، ’’میں اس پوزیشن میں نہیں کہ صدر اوباما اور کسی دوسرے ملک کے کسی رہنما کے مابین ہونے والی نجی رابطہ کاری پر کوئی بیان دوں۔‘‘
یہ امر اہم ہے کہ ایران اور امریکا تہران کے متنازعہ پروگرام کے بارے میں ایک حتمی ڈیل کے لیے مذاکراتی عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایرنسٹ کو بقول ایرانی جوہری مذاکرات کاروں اور عالمی برادری کے نمائندوں کے مابین ہونے والے تازہ مذاکرات کے موقع پر اسلامی شدت پسندی کے حوالے کے موضوع پر بھی گفتگو ہوئی ہے۔
وال اسٹریٹ جرنل نے اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ 2009ء میں امریکی صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد باراک اوباما کی طرف سے خامنہ ای کو ارسال کیا گیا یہ چوتھا خط تھا۔ امریکی حکام کے مطابق ان خطوط کے جواب میں ایرانی رہنما کی طرف سے ذاتی طور پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔
امریکی صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد باراک اوباما کی طرف سے خامنہ ای کو ارسال کیا گیا یہ چوتھا خط تھا
دوسری طرف امریکی وزیر خارجہ جان کیری اتوار کے دن عمان میں اپنے ایرانی ہم منصب محمد جواد ظریف سے ملاقات کر رہے ہیں۔ جوہری مذاکرات کے سلسلے میں ہونے والی اس ملاقات میں یورپی یونین کے خارجہ امور کی سربراہ کیتھرین ایشٹن بھی شریک ہوں گی۔
مسقط میں ہونے والی اس ملاقات کے بعد یہ رہنما ویانا روانہ ہو جائیں گے، جہاں سلامتی کونسل کے مستقل پانچ رکن ممالک اور جرمنی کے نمائندے بھی ایرانی جوہری مذاکرات کے حوالے سے چوبیس نومبر تک کسی جامع ڈیل تک پہنچنے کی کوشش کریں گے۔
اشاعت ڈی ڈبلیو اردو
إرسال تعليق