’میرے پاس آپ کے ساتھ شیئر کرنے کے لیے ایک خبر ہے اورمجھے امید ہے کہ بی بی سی ہی مظلوم کی مدد کر سکتی ہے‘ یہ بی بی سی اردو کے فیس بُک پر روزانہ ملنے والے درجنوں پیغامات میں سے ایک میسیج تھا۔
چونکہ ہر پیغام کا جواب دیا جاتا ہے تو اس میسیج کے جواب دینے پر جب پانچ منٹ کا ایک ویڈیو کلپ ملا تو میں ایک دم ساکت ہو گیا کیونکہ جو ویڈیو میں تھا میں نے ایسا پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
یہ ویڈیو ایک لڑکی کے گینگ ریپ کے پہلے پانچ منٹ پر مشتمل تھی جس میں وہ برہنہ اپنی بے چارگی پر مدد مانگ رہی ہوتی ہے، چیخیں مار رہی ہوتی ہے اور ویڈیو میں موجود مرد اس سے لطف اندوز ہو رہے ہوتے ہیں۔
شاید یہ لکھنا آسان ہے کہ اس کے بعد کئی دن تک سونا مشکل تھا اُس حقیقت سے کہ اب بھی میں اپنی سوچ کو اُس کرب بے چارگی کا احاطہ کرنے سے روکتا ہوں۔
جب اس ویڈیو کی کڑیاں ملاتے ملاتے اُس علاقے میں پہنچے جہاں یہ واقعہ ہوا تھا تو شاید ہی کوئی مرد ایسا ہو جس نے یہ ویڈیو نہ دیکھی ہو یا کم از کم اسے اس کے بارے میں پتا نہ ہو۔
ہم بات کرتے ہیں دنیا کے گلوبل ویلج بننے کی یہاں یہ سب آنکھوں دیکھا ہے جس میں بلو ٹوتھ، وٹس ایپ، فیس بُک اور دوسری ویب سائٹس سے ویڈیو اور تصاویر ہاتھ کے ہاتھ دنیا بھر میں سیکنڈز میں گھومتی ہیں۔
جو بات سب سے زیادہ کھٹکی وہ یہ تھی کہ کسی مرد نے اس ویڈیو یا اس میں کی جانے والے گھناؤنے جرم یا اسے تقسیم یا شیئر کرنے کے جرم کے بارے میں کسی قسم کی بھی ندامت یا دکھ کا اظہار نہیں کیا سب کے لیے یہ عام سی بات تھی۔
ایک نے بتایا کہ ’میرے پاس موبائل میں تھی میں نے کل ہی ڈیلیٹ کی‘ دوسرے نے بتایا ’آپ نے دیکھی اگر نہیں تو میں شیئر کروں آپ وٹس ایپ پر ہیں نا؟‘ تیسرے نے کہا کہ ’لڑکی کا سارا قصور ہے۔‘
کریدنے پر اندازہ ہوا کہ لڑکیاں جنہیں ماڈرن لڑکے ’گرل فرینڈز‘ کہتے ہیں جتنی زیادہ ہوں اتنی ہی ایک لڑکے کی ’ٹور‘ زیادہ بنتی ہے اور جن سے وہ جان چھڑانا چاہتا ہے وہ انہیں دوسرے دوستوں کے حوالے کر دیتا ہے۔
ایک ملزم نے تو یہاں تک بتایا کہ ’جناب سارا فساد ایک لڑکے کی وجہ سے ہوا کیونکہ اُس کو غصہ تھا لڑکی اُس کے ساتھ شیئر کیوں نہیں کی گئی اور اُس نے مخبری کر دی اور ویڈیو انٹرنیٹ پر لگا دی، یوں بھانڈا پھوٹ گیا۔‘
چونکہ ہر پیغام کا جواب دیا جاتا ہے تو اس میسیج کے جواب دینے پر جب پانچ منٹ کا ایک ویڈیو کلپ ملا تو میں ایک دم ساکت ہو گیا کیونکہ جو ویڈیو میں تھا میں نے ایسا پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
یہ ویڈیو ایک لڑکی کے گینگ ریپ کے پہلے پانچ منٹ پر مشتمل تھی جس میں وہ برہنہ اپنی بے چارگی پر مدد مانگ رہی ہوتی ہے، چیخیں مار رہی ہوتی ہے اور ویڈیو میں موجود مرد اس سے لطف اندوز ہو رہے ہوتے ہیں۔
شاید یہ لکھنا آسان ہے کہ اس کے بعد کئی دن تک سونا مشکل تھا اُس حقیقت سے کہ اب بھی میں اپنی سوچ کو اُس کرب بے چارگی کا احاطہ کرنے سے روکتا ہوں۔
جب اس ویڈیو کی کڑیاں ملاتے ملاتے اُس علاقے میں پہنچے جہاں یہ واقعہ ہوا تھا تو شاید ہی کوئی مرد ایسا ہو جس نے یہ ویڈیو نہ دیکھی ہو یا کم از کم اسے اس کے بارے میں پتا نہ ہو۔
ہم بات کرتے ہیں دنیا کے گلوبل ویلج بننے کی یہاں یہ سب آنکھوں دیکھا ہے جس میں بلو ٹوتھ، وٹس ایپ، فیس بُک اور دوسری ویب سائٹس سے ویڈیو اور تصاویر ہاتھ کے ہاتھ دنیا بھر میں سیکنڈز میں گھومتی ہیں۔
جو بات سب سے زیادہ کھٹکی وہ یہ تھی کہ کسی مرد نے اس ویڈیو یا اس میں کی جانے والے گھناؤنے جرم یا اسے تقسیم یا شیئر کرنے کے جرم کے بارے میں کسی قسم کی بھی ندامت یا دکھ کا اظہار نہیں کیا سب کے لیے یہ عام سی بات تھی۔
ایک نے بتایا کہ ’میرے پاس موبائل میں تھی میں نے کل ہی ڈیلیٹ کی‘ دوسرے نے بتایا ’آپ نے دیکھی اگر نہیں تو میں شیئر کروں آپ وٹس ایپ پر ہیں نا؟‘ تیسرے نے کہا کہ ’لڑکی کا سارا قصور ہے۔‘
کریدنے پر اندازہ ہوا کہ لڑکیاں جنہیں ماڈرن لڑکے ’گرل فرینڈز‘ کہتے ہیں جتنی زیادہ ہوں اتنی ہی ایک لڑکے کی ’ٹور‘ زیادہ بنتی ہے اور جن سے وہ جان چھڑانا چاہتا ہے وہ انہیں دوسرے دوستوں کے حوالے کر دیتا ہے۔
ایک ملزم نے تو یہاں تک بتایا کہ ’جناب سارا فساد ایک لڑکے کی وجہ سے ہوا کیونکہ اُس کو غصہ تھا لڑکی اُس کے ساتھ شیئر کیوں نہیں کی گئی اور اُس نے مخبری کر دی اور ویڈیو انٹرنیٹ پر لگا دی، یوں بھانڈا پھوٹ گیا۔‘
جناب سارا فساد ایک لڑکے کی وجہ سے ہوا کیونکہ اُس کو غصہ تھا لڑکی اُس کے ساتھ شیئر کیوں نہیں کی گئی اور اُس نے مخبری کر دی اور ویڈیو انٹرنیٹ پر لگا دی، یوں بھانڈا پھوٹ گیا۔
ایک ملزم
یہ صاحب مجھے یہ بات سمجھا رہے تھے کہ لڑکی کے ساتھ ایک ملزم نے تعلقات استوار کیے اس کے بعد ملزم ایک سے ہوتے ہوتے چار ہو گئے اور لڑکی ان سب کے درمیان بلیک میل ہونے لگی اور پانچویں مرد تک بات پہنچنے پر معاملہ ہاتھ سے نکل گیا۔
مگر اس سارے گھناؤنے کام میں سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کا اہم کردار ہے اور جو یہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں 11 فیصد لوگوں کی رسائی انٹرنیٹ تک ہے انہیں اس دور دراز گاؤں میں جانا چاہیے جہاں ایک میٹرک فیل لڑکے کو اندازہ تھا کہ فیس بُک پر ڈالنے بات سے زیادہ دور تک بات جائے گی جہاں بلو ٹوتھ انٹرنیٹ کی غیر موجودگی کو غیر اہم بنا دیتا ہے اور یو ایس بی تو ہے ہی۔
اور قوانین کی تو بات ہی نہ کریں کیونکہ 2010 میں ختم ہونے والے سائبر کرائمز قانون کے بعد سے اس طرح کے کیسز اللے تللے سے چلائے جاتے ہیں جہاں جو قانون اڑ جائے وہاں اُس کی دفعہ لگ جاتی ہے اور جس کا مدعی تگڑا ہو اس کی ایف آئی آر بھی تگڑی ہوتی ہے۔
ریوینج پورن یا بدلے کے لیے پورن یا بلیک میل کرنے کے لیے ویڈیوز پر مغرب میں اب بات ہو رہی ہے مگر ہمارے ہاں بھی یہ برائیاں کسی نہ کسی صورت میں موجود رہی ہیں جنہیں سستے کیمرے والے موبائل فونوں کی مدد سے ایک نئی آسانی میسر ہو گئی ہے اور موبائل انٹرنیٹ نے تقسیم کا کام بھی آسان کر دیا ہے۔
آپ خود ہی سوچیں ڈیٹ پر جانے والا لڑکا لڑکی یہ تھوڑی سوچیں گے کہ اُن کے آس پاس کوئی کیمرہ ہے اُنہیں اور تھوڑی ٹینشنیں ہوتی ہیں اور لاعلمی کا فائدہ اٹھانے والوں کی کمی نہیں ہمارے آس پاس۔
ایک مقامی شخص
ایک اور صاحب نے سمجھایا کہ ’آپ خود ہی سوچیں ڈیٹ پر جانے والا لڑکا لڑکی یہ تھوڑی سوچیں گے کہ اُن کے آس پاس کوئی کیمرہ ہے اُنہیں اور تھوڑی ٹینشنیں ہوتی ہیں اور لاعلمی کا فائدہ اٹھانے والوں کی کمی نہیں ہمارے آس پاس۔‘
رہ گئی بات ویڈیو کی تو شاید آپ نے بھی ایسی ویڈیوز دیکھی ہوں گی مگر اس کے بعد آپ نے کیا کیا؟ اپنی ساری ایڈریس بُک کے ساتھ شیئر کی یا فیس بُک پر پرائیویٹ میسیج میں بھجوا کر چسکے لیے؟
جتنا گھٹیا آپ یہ سب پڑھ کر محسوس کر رہے ہوں گے اتنا ہی میں یہ لکھتے ہوئے محسوس کر رہا ہوں مگر یہ سارا واقعہ اور اس سے جڑے حقائق اس سے بھی زیادہ گھٹیا اور غلیظ ہیں۔
حتمی بات یہ ہے کہ اس کے آخر میں سارا ملبہ ایک لڑکی کے ناتواں کندھوں پر ہے جو اپنی عزت اور عصمت، سب کچھ داؤ پر لگا کر انصاف کی منتظر ہے۔
آپ اسے اس جرم میں برابر کی شریک کہہ کر غیر اہم ثابت کریں یا موقع پرست کہہ کر جھٹلائیں مگر آپ اس کی ہمت اور عزم کو نظر انداز نہیں کر سکتے کیونکہ اب اس کے تن پر سے اتارنے کو کوئی پیرہن باقی ہی کب بچا ہے جس کی خاطر وہ کسی چیز کو خاطر میں لائے۔
بی بی سی اردو
إرسال تعليق