اِس دشت سے آگے بھی کوئی دشتِ گماں ہے
لیکن یہ یقیں کون دلائے گا کہاں ہے
یہ روح کسی اور علاقے کی مکیں ہے
یہ جسم کسی اور جزیرے کا مکاں ہے
کشتی کے مسافر پہ یونہی طاری نہیں خوف
ٹھہرا ہوا پانی کسی خطرے کا نشاں ہے
جو کچھ بھی یہاں ہےترے ہونے سے ہے ورنہ
منظر میں جو کھلتا ہے، وہ منظر میں کہاں ہے
اِس راکھ سے اٹھتی ہوئی ۔۔خوشبو نے بتایا
مرتے ہوئے لوگوں کی کہاں جائے اماں ہے
کرتاہے وہی کام جو کرنا نہیں ہوتا
جو بات میں کہتاہوں یہ دل سنتا کہاں ہے
یہ کارِ سخن کارِ عبث تو نہیں عامی
یہ قافیہ پیمائی نہیں حسنِ بیاں ہے
إرسال تعليق