اسلام آباد: یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ شریف برادران سیاستدانوں پر بیوروکریٹس کو ترجیح دیتے ہیں اور حکومتی اہم عہددوں کو بھی 'اپنے خاندان میں ' رکھنے کو ہی ترجیح دیتے ہیں اور یہ ان کی نااہلی ہی ہے، جس کے باعث ان کا اپنا حکومتی قلعہ، صوبہ پنجاب پیٹرول کی قلت کے باعث مفلوج ہوکر رہ گیا ہے۔
حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) میں وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے کچھ قریبی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ نوے کی دہائی کے بعد سے لے کر آج تک شریف برادران نے اہم حکومتی عہدوں کے لیے اپنے پارٹی ساتھیوں کے بجائے خاندان کے افراد کو ترجیح دی، جس کا فائدہ ہونے کے بجائے نقصان زیادہ ہوا اور گزشتہ سالوں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ انھوں نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔
مسلم لیگ (ن) کے ایک رہنما نے ڈان کو بتایا کہ کچھ وزراء، جو عوام کو بہت با اختیار لگتے ہیں، ان کے پاس درحقیقت کوئی اختیار نہیں، حتیٰ کہ انھیں اپنا ذاتی اسٹاف تبدیل کرنے کے لیے بھی وزیراعظم ہاؤس سے اجازت لینی پڑتی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ سینیٹر اسحاق ڈار کی ہر جگہ بطور اصل وزیراعظم موجودگی اور تمام وزارتوں پر ان کے سخت کنٹرول نے بھی حکومت میں ہر ایک کو پریشان کر رکھا ہے۔
ن لیگ کے چند رہنماؤں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اگر پیٹرول پمپس پر لگنے والی لمبی لمبی قطاروں کا جواب دہ کوئی ہے تو وہ اسحاق ڈار ہیں۔
یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ حکومت چلانے کے طریقہ کار نے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب دونوں کو شرمندگی میں مبتلا کیا ہو۔
گزشتہ ہفتے تاجر برادری کے ساتھ ایک ملاقات میں کراچی کے چند تاجروں نے وزیراعظم سے پرائیویٹ پاور اینڈ انفراسٹرکچر بورڈ (پی پی آئی بی) کی شکایت کی اور وزارت پانی و بجلی کی جانب سے نئے پاور پلانٹس لگانے کے لیے سہولیات فراہم نہ کرنے کا الزام لگایا۔
اس حوالے سے وزیراعظم نے وہاں موجود افسران سے وضاحت طلب کی، لیکن جب انھوں نے اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کی کوشش تو جواب میں وزیراعظم نے نہایت غصے سے کہا کہ 'مجھے نہیں معلوم کہ آپ لوگ کس کے لیے کام کر رہے ہیں'؟
وزارت پانی و بجلی کے ایک سینیئر افسر نے ڈان کو بتایا کہ جب سے پاور سیکٹر میں انوسٹمنٹ کے لیے آسان شرائط پر چینی حکومت کی جانب سے سرمایہ ملا ہے ، وزارت اور پی پی آئی بی پر ہر طرف سے سہولیات فراہم کرنے کے لیے زبردست دباؤ ڈالا جارہا ہے۔
'چونکہ یہاں اقتدار کا مرکز ایک سے زائد ہے لہذا اس قسم کے فیصلوں کے اطلاق کے لیے ہمیں بہت زیادہ محتاط رہنا پڑتا ہے'۔
ایک سینیئر حکومتی عہدیدار نے بتایا کہ چاہے کوئی بھی وزرات ہو، پالیسی سے متعلق کسی بھی فیصلے کو وزیراعظم، سینیٹراسحاق ڈار اور وزیراعلیٰ پنجاب کو جائزے کے لیے الگ الگ بھیجا جاتا ہے۔ 'یہ وہ طریقہ ہے جس طرح حکومت چلائی جا رہی ہے'۔
اسی طرح وزارت توانائی، جس کے وفاقی وزیر خواجہ آصف جبکہ عابد شیر علی اسٹیٹ منسٹر ہیں، بھی شریف برادران کی ہدایات اور ان کے چند من پسند مشیروں کے مشوروں کے بغیر نہیں چل سکتی۔
پنجاب کے نئے چیف سیکریٹری کی تعیناتی کے حوالے سے بھی اپنے قابل اعتماد بیوروکریٹس پر شریف برادران کا یقین اس ماہ کے آغاز میں سامنے آیا۔
جب شہباز شریف کو اس بات پر جھٹکا لگا کہ نیا چیف سیکریٹری ان کی لازمی اجازت کے بغیر ہی تعینات کردیا گیا۔
معلوم ہوا کہ وفاق اور پنجاب کے چند اہم بیوروکریٹس نے یعقوب فتح محمد کے نام پر اتفاق کیا اور وزیراعلیٰ شہباز شریف کی اجازت کے بغیر ہی ان کی تعیناتی کا نوٹیفیکیشن جاری کردیا گیا۔
اجازت کے بغیر نئے چیف سیکیریٹری کی تعیناتی کا سن کر وزیراعلیٰ پنجاب نے اپنے صوبائی سروسز سیکریٹری محی الدین وانی کو برطرف کردیا اور اس کے بعد خضر حیات گوندل کی بطور نئے صوبائی چیف سیکرٹری تعیناتی نے مزید ڈرامہ پیدا کیا۔
اس سنگین بحران کے دوران وزارت پیٹرولیم کے اہم عہدیداران کی معطلی کےحوالے سے بات کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے ایک اہم رہنما نے بتایا کہ 'اگر طاقت کا مرکز ایک ہوتا تو یہ کبھی نہ ہوتا'۔
اگر اس بات کا یقین دلایا جاتا کہ تیل کی بلاتعطل فراہمی صرف پیٹرولیم کے وزیر شاہد خاقان عباسی کی ذمہ داری ہے تو وہ اس حوالے سے اقدامات کرلیتے اور دوسری صورت میں بحران کی شدت کا اندازہ کرنے اور ان کو برطرف کرنے میں وزیراعظم نے اتنا وقت نہ لیا ہوتا۔ 'چند عہدیداروں کی معطلی سے وزیراعظم صرف اصل مسئلہ کو نظر انداز کر رہے ہیں'۔
جیسا کہ مجودہ بحران پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) کی جانب سے ادائیگیوں کا ہے، لہذا یہ خالصتآً اسحاق ڈار کی وزارت خزانہ کا مسئلہ ہے اور اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا وزیراعظم اس طاقتور وزارت کے خلاف کوئی ایکشن لے سکیں گے۔
http://www.dawnnews.tv/news/1015454/
إرسال تعليق