ملائیشیا ء میں خواتین کے ختنوں کا جنون ،حیرت انگیز اعداو شمار
کوالا لمپور: زنانہ ختنوں کی قبیح رسم پسماندہ افریقی ممالک میں ہی نہیں بلکہ ملائیشیاءجیسے بظاہر پڑھے لکھے اور خوشحال ملک میں بھی عام پائی جاتی ہے۔ جریدے ”وائس“ کی صحافی مارٹا کازٹیلان نے حال ہی میں ملائیشیاءکی خواتین کا ایک سروے کیا جس میں یہ حیران کن انکشاف سامنے آیا کہ نوعمر لڑکیوں میں سے تقریباً 90فیصد زنانہ ختنوں کے عمل سے گزر چکی تھیں۔
خاتون صحافی کا کہنا ہے کہ سیاحراہ نامی 19 سالہ لڑکی نے انہیں بتایا کہ وہ زنانہ ختنوں کے خلاف نہیں ہے کیونکہ اسے یہ تعلیم دی گئی ہے کہ لڑکیوں کے بارے میں اسلام یہی حکم دیتا ہے۔ سیاحراہ کا کہنا ہے کہ وہ خود بھی اس عمل سے گزرچکی ہے اور دیگر نوعمر لڑکیوں کے لئے بھی اس کے حق میں ہے۔ صحافی خاتون نے جن افرادسے بات کی ان کا کہنا تھا کہ زنانہ ختنوں کی وجہ سے لڑکیوں میں شادی سے قبل صنف مخالف کے ساتھ تعلق استوار کرنے کی خواہش نہیں رہتی اور یوں یہ معاشرے کی اخلاقی فلاح کا باعث ہے۔
سال 2012ءمیں یونیورسٹی آف ملایا کی پروفیسر ڈاکٹر مزنہ داہلوئی نے ایک تحقیق کی جس کے مطابق تقریباً 93 فیصد نوعمر لڑکیوں کے ختنے کئے جاچکے تھے۔ ڈاکٹر مزنہ کا کہنا ہے کہ ملائیشیا میں یہ عمل دیگر ممالک کی نسبت زیادہ جدید طریقوں پر مبنی ہے اور عموماً اسے پرائیویٹ ہسپتالوں کے ڈاکٹر سرانجام دیتے ہیں اور اسے عام طور پر ایک سے چھ سال کی بچیوں پر سرانجام دیا جاتا ہے۔ افریقہ کے پسماندہ ممالک میں عموماً ننھی بچیوں کے تولیدی اعضاءکا کچھ حصہ کاٹ دیا جاتا ہے جبکہ ملائشیا میں اس میں سوئی کے ذریعے چھید کیا جاتا ہے۔
اقوام متحدہ اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اس گھناﺅنے عمل کو بچیوں کی جان سے کھیلنے کے مترادف قرار دیتے ہیں۔ متعدد تحقیقات یہ ثابت کرچکی ہیں کہ زنانہ ختنے بچیوں میں خوفناک بیماریوں اور حتٰی کہ موت کا سبب بھی بنتے ہیں۔
خبر کا ذریعہ : ڈیلی پاکستان ویب
إرسال تعليق