کتا کنویں سے نکالو . اوریا مقبول جان
پاکستان کی تاریخ انکوائری کمیشنوں سے عبارت رہی ہے۔ شاید ہی کوئی ملک ایسا ہو جس نے عوامی دباؤ کو ختم کرنے کے لیے مسائل حل کرنے کے بجائے انھیں سرد خانے میں ڈال کر اعلیٰ سطح کے کمیشن بنا دیے ہوں ہم اس فن میں یدِ طولیٰ رکھتے ہیں۔
پاکستان کے ابتدائی سالوں میں ایسے کمیشنوں کی تعداد بہت کم تھی، لیکن اب تو یوں لگتا ہے جیسے ہر بڑے المیے اور اہم مسئلے کا حل ہی ایک کمیشن کی تشکیل میں پوشیدہ ہے۔ یہ کمیشن بڑے بڑے سانحات پر بھی بنے اور تبدیلی کے خواہشمند حکمرانوں نے ریفامز لانے کے لیے بھی بنائے۔
لیکن ان تمام کمیشنوں کی رپورٹوں کا مقدر تقریباً یکساں ہے۔۔ الماریوں کی زینت۔۔ کچھ کھلی الماریوں میں پڑی رہتی ہیں اور دو چار اخبار نویس ان پر تبصرہ کرتے رہتے ہیں اور کچھ ایسی ہیں جنھیں ایک راز سمجھ کر سربمہر کر دیا جاتا ہے اور پھر ایک دن انھیں کوئی چرا لے جاتا ہے اور شایع کر دیتا ہے۔ کچھ دن ان پر بھی تبصرے چلتے ہیں اور پھر مستقل خاموشی چھا جاتی ہے۔
گزشتہ 60 سالوں کے دوران بننے والے ان کمیشنوں کی رپورٹوں کو اگر ایک دفعہ سنجیدگی سے پڑھ لیا جائے تو اس ملک کو ایک بہتر راستے پر ڈالنے کے لیے مزید کسی رہنمائی کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ کونسا ایسا شعبہ ہے جہاں انتہائی محنت اور جانفشانی سے رپورٹیں نہ مرتب کی گئی ہوں۔
صرف اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹیں پڑھ لی جائیں اور ان کی پاکستان کے تمام قوانین پر شِق وار بحث دیکھ لی جائے تو آدمی حیرت میں گم ہو جاتا ہے۔ کونسل کی یہ رپورٹیں آئین کے مطابق پارلیمینٹ میں پیش ہونا چاہیں تھیں، لیکن اب تو انھیں ڈھونڈنا تک مشکل ہو چکا ہے۔
کمیشنوں کی یہ رپورٹیں اگر منظر عام پر آ بھی جائیں تو ہمارے حکمران اسقدر بے حس واقع ہوئے ہیں کہ نہ تو انھوں نے کبھی ان کے مندرجات پر غور کیا، نہ ہی اس سے کچھ سبق سیکھا، اور نہ ہی ان کے بتائے گئے خطرات سے بچنے کے لیے کوئی تدبیر کی۔ عدلیہ، انتظامیہ، پولیس، صحت، تعلیم، زراعت غرض کونسا شعبہ ایسا ہے جس کے بارے میں کروڑوں روپے خرچ کر کے کمیشن نہ بٹھائے گئے ہوں، اعلیٰ سطح کے تحقیقی گروہ نہ بنائے گئے ہوں، لیکن ان سب کا لکھا بس الماریوں کی زینت ہے۔
انکوائری کمیشن کی اس تاریخ میں ایک تازہ ترین کمیشن ’’ایبٹ آباد کمیشن‘‘ ہے۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ تھی کہ ایک رات اچانک امریکی ہیلی کاپٹر پاکستان کی حدود میں داخل ہوئے، ایبٹ آباد کے ایک گھر میں امریکی دستے اترے، انھوں نے دنیا کے سب سے مطلوب فرد، اسامہ بن لادن پر گولیوں کی بوچھاڑ کی، جاتے ہوئے اس کی لاش اور گھر میں موجود اہم سامان ساتھ لے گئے۔ دو مئی2011ء ۔ یہ ایک بہت حیران کن دن تھا۔
کمیشن بنا، سپریم کورٹ کا ایک سنیئر جج اس کا سربراہ، ایک ریٹائرڈ انسپکٹر جنرل پولیس، ایک ریٹائرڈ سفارت کار اور ایک ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل اس کے ممبران تھے۔ رپورٹ مرتب کر دی گئی۔ رپورٹ سربمہر کر دی گئی، سرد خانے میں چلی گئی۔ لیکن8 جولائی 2013ء کو الجزیرہ چینل نے وہ رپورٹ اپنی ویب سائٹ پر شایع کر دی۔ یہ رپورٹ پاکستان میں ہونے والی خونریزی، دہشت گردی اور فرقہ وارانہ قتل و غارت کے بنیادی عوامل پر ایک ایسے زاویے سے بحث کرتی ہے جو ہماری اس دہشت گردی کی جنگ میں کبھی بھی واضح نہیں کیا گیا۔ حتیٰ کہ سانحہ پشاور کے بعد بلائی جانے والی آل پارٹیز کانفرنس، مشترکہ اعلامیہ، نیشنل ایکشن پلان اور اس کے نتیجے میں ہونے والی اکیسویں ترمیم کی بحث میں بھی اس بنیادی نقطے پر کسی نے گفتگو تک نہیں کی۔
دنیا میں کوئی خلفشار، کوئی دہشت گردی حتیٰ کہ ریاستی جبر سے آزادی کی تحریک بھی کبھی اس قدر طویل نہیں چل پاتی، اگر اسے بیرونی مدد یا اشیر باد حاصل نہ ہوں۔ بیرونی مدد اور اشیر باد کے بھی اب ہزار طریقے ایجاد ہو چکے ہیں۔ سرمایہ اور اسلحہ فراہم کرنا ایک عام سی بات ہو کر رہ گئی ہے۔ اب تو بڑی طاقتیں چھوٹے ملکوں کے اندر باقاعدہ اپنی انٹیلی جنس ایجنسیوں کا نیٹ ورک بناتے ہیں اور وہ براہ راست اس سارے کھیل کی نگرانی کرتے ہیں۔ اس کا آغاز امریکی سی آئی اے نے سب سے پہلے لاطینی امریکا کے ممالک میں شروع کیا اور وہاں کے عوام کو آگ اور خون میں نہلا دیا گیا۔
اسی طرح افریقہ کے ممالک میں اس کی لگائی گئی آگ آج تک ایک الاؤ کی طرح روشن ہے اور روزانہ ہزاروں لوگ اس میں لقمۂ اجل بن جاتے ہیں۔ ان تمام ممالک میں سی آئی اے کے نیٹ ورک کی کارستانیاں پڑھ لیں، لاپتہ افراد، قتل و غارت گری، قبائلی اور نسلی فسادات، لگتا ہے پورا ملک اس آگ کی لپیٹ میں ہے جب کہ ان ممالک میں پس پردہ سی آئی اے کا کوئی نام تک نہیں لیتا۔ سب کہتے ہیں یہ تو ہمارا اپنا قصور ہے۔
پاکستان میں بھی دہشت گردی کے خلاف بننے والے نیشنل ایکشن پلان بناتے وقت کسی نے اس بنیادی نکتے پر غور ہی نہیں کیا کہ ایبٹ آباد کمیشن اس ملک میں سی آئی اے کے ایک وسیع نیٹ ورک کی نشاندہی کر چکا ہے۔ اس نیٹ ورک کی موجودگی میں دہشت گردی کا خاتمہ ایسے ہی جیسے کنویں سے سو ڈول پانی نکال لیا جائے لیکن کتا نہ نکالا جائے۔
یہ رپورٹ اپنے صفحہ332 اور پیرا گراف786 میں تحریر کرتی ہے ’’اگر پاکستان نے اپنے زیر نگیں علاقوں میں امن اور اختیار قائم کرنا ہے تو اسے فوری طور پر سی آئی اے اور دیگر بیرونی ملکوں کے خفیہ اور عسکری نیٹ ورک ختم کرنے ہوں گے‘‘۔ رپورٹ کے پیرا 531 میں درج ہے کہ ’’سی آئی اے پاکستان میں مختلف طریقوں سے نیٹ ورک چلاتی ہے اور اس نے این جی اوز، ٹھیکیداروں، ملٹی نیشنل کمپنیوں، سفارت کاروں کے بھیس میں عہدیداروں اور تکنیکی ماہرین کے ذریعے ایک وسیع جال پھلا رکھا ہے اور اس بات کی شہادتیں وزارت دفاع نے مہیا کی ہیں‘‘ رپورٹ کے پیرا گراف 572 میں درج ہے ’’کمیشن نے معلومات حاصل کیں کہ امریکیوں نے اسلام آباد میں389 گھر کرائے پر لیے ہوئے ہیں۔
جب وزارت سے پوچھا گیا کہ امریکیوں کے پاکستان آنے جانے کی کوئی پالیسی موجود ہے تو جواب ملا کہ2000ء میں تجارتی مقاصد کے لیے ویزا پابندیاں نرم کی گئی تھیں اور اب نسبتاً کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ ’’رپورٹ کے پیرا گراف516 میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی کا ذکر ہے، جنہوں نے امریکیوں کو بے تحاشا ویزے جاری کیے۔
جس کی وجہ سے سی آئی اے کو پاکستان میں اپنا نیٹ ورک بنانے میں مدد ملی‘‘۔ اسی لیے اپریل2011ء میں جب امریکا میں خفیہ ایجنسیوں کی کانفرنس ہوئی جنھیں (Spymasters) کہا جاتا ہے تو امریکی سی آئی اے کے نمایندے نے کھلم کھلا کہا کہ ہم نے پاکستان میں اپنا نیٹ ورک بنا لیا ہے اور وہ اسقدر مضبوط ہے کہ ہمیں اب آئی ایس آئی کی بھی ضرورت نہیں رہی۔ یہ نیٹ ورک2011ء تک مضبوط اور مستحکم ہو چکا تھا۔
اگر سی آئی اے کا طریق کار پوری دنیا کے ممالک میں دیکھ لیں اور خصوصاً مسلم ممالک میں تو بات واضح ہو جائے گی کہ آج ہم جس عذاب میں مبتلا ہیں اس کی وجہ یہی نیٹ ورک ہے۔ لبنان میں ساٹھ کی دہائی میں سی آئی اے کا ہیڈ کوارٹر بنا اور اس کے بعد لبنان میں شیعہ سنی اور عیسائی ایک دوسرے کی لاشیں گرانے لگے۔ بحرین اور یمن میں یہ لوگ داخل ہوئے اور قتل و غارت گری کا آغاز ہوا۔ عراق میں شیعہ سنی ایک محلے میں ساتھ ساتھ رہتے تھے لیکن آج وہاں مسلم امہ کی سب سے بڑی شیعہ سنی جنگ برپا ہے، جہاں دنیا بھر سے لڑنے مرنے والے اکٹھا ہو رہے ہیں۔ سی آئی اے کا پاکستان میں نیٹ ورک تنہا نہیں بلکہ وہ بھارتی خفیہ ایجنسی را، افغان ایجنسی خاد اور اسرائیلی ایجنسی موساد کی سرپرست کے طور پر بھی کام کرتی ہے۔
اس حقیقت سے پاکستان کی ہر خفیہ ایجنسی آگاہ ہے، ہر کوئی جانتا ہے کہ پاکستان سے کس طرح نوجوان دبئی جاتے ہیں، وہاں سے بھارتی قونصل جنرل ان کا بھارت کا ویزا جاری کرتا ہے، وہ ٹریننگ لے کر واپس آتے ہیں، افغانستان میں کس طرح انھیں پناہ ملتی ہے۔ یہ انٹیلیجنس کی دنیا میں ایک خبر نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے کہ بھارت کا CIT-X پلان کس قدر تفصیل سے پاکستان میں دہشت گردی کا سرچشمہ ہے اور اسے یہاں موجود سی آئی اے کے نیٹ ورک کی پشت پناہی حاصل ہے۔
کیا یہ سب کچھ پاکستان کے دہشت گردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان میں ایک دفعہ بھی زیر بحث آیا۔ کسی نے کہا کہ تباہی کا اصل ذمے دار کون ہے۔ نصاب بدلو، لاؤڈ اسپیکر پر پابندی لگاؤ، لٹریچر ضبط کرو، اسکولوں کی دیواریں بلند کرو، یہ سب پانی کے ڈول ہیں جو کنویں سے نکالے جا رہے ہیں۔ جب کہ کتا تو کنویں میں موجود ہے، اسے نکالے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں، نہ امن، نہ سکون اور نہ خوشحالی۔
إرسال تعليق