وہ چینی بولتے رہے اور ہم انگریزی
تحریر: ثاقب اکبر
21 اپریل 2015ء: دو روزہ دورۂ پاکستان کے دوران میں چینی صدر ہر نشست میں چینی زبان بولتے رہے لیکن ہمارے راہنماؤں نے ہر ملاقات میں ان سے انگریزی میں بات کی۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ کیا ہمارے راہنماؤں کو اردو زبان نہیں آتی؟ نہیں، انھیں آج بھی ’’اردو‘‘ انگریزی سے بہتر آتی ہے؟ کیا ان کے پاس اور چینیوں کے پاس اردو میں ترجمے کے لئے مترجمین نہیں ہیں؟ نہیں، ایسا بھی نہیں؟ تو پھر کیا وجہ ہے۔ پاکستانی صدر جو شائستہ اور شستہ اردو بولتے ہیں، ان سے لے کر سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق تک نے مہمان معزز سے بات کرنے کے لئے انگریزی کو وسیلۂ اظہار کیوں بنایا؟ چینی صدر ہی کیا، اس ملک میں جو بھی بڑی شخصیت وارد ہوتی ہے، عام طور پر مافی الضمیر بیان کرنے کے لئے اپنی قومی زبان اختیار کرتی ہے۔ گذشتہ دنوں ترک راہنما تشریف لائے، وہ ترکی زبان بول رہے تھے، عرب آتے ہیں تو وہ عربی بولتے ہیں، جرمن آتے ہیں تو وہ جرمنی بولتے ہیں، فرانسیسی آتے ہیں تو وہ فرانسیسی بولتے ہیں، انگریز آتے ہیں تو وہ اپنی انگریزی بولتے ہیں اور امریکی آتے ہیں تو وہ انگریزوں کی انگریزی نہیں بلکہ اپنی انگریزی بولتے ہیں اور ہم سب سے انگریزی بولتے ہیں۔
ایک رائے یہ ہوسکتی ہے کہ ہم انگریزی بولنے والوں کو فوری طور پر بلاواسطہ بتانا چاہتے ہیں کہ مطمئن رہیئے اور سن لیجیئے ہم نے آپ کے خلاف کوئی بات نہیں کی۔ ہمیں تو یہ رائے سطحی سی لگتی ہے، اگرچہ اس کے لئے یہ دلیل پیش کی جائے کہ انگریزی بولنے والے ملکوں سے ہمارے شخصی اور قومی معاملات تہ در تہ جڑے ہوئے اور چلے آرہے ہیں۔ آج کل میڈیا اور زبانوں میں مہارت اور ترجمے کا عمل جس قدر ترقی کرچکا ہے، اس کے ہوتے ہوئے کوئی اہم بات سرحدوں میں مقید نہیں رکھی جاسکتی۔ ہمارے راہنما اردو بولیں اور چینی چینی زبان بولیں تو دنیا کے اہم ترین دارالخلافوں میں فوری طور پر ان کی زبان میں ترجمہ ہو کر پہنچ سکتی ہے، بلکہ پہنچ جاتی ہے۔ تو پھر کیا انگریزی زبان ترقی اور کامیابی کی علامت ہے؟ اگر ایسا ہو تو چینی بھی انگریزی زبان کو سرکاری طور پر اختیار کرتے، ترقی کی منزلیں طے کرتے اور دنیا میں کامیابی کے بلند زینوں پر قدم رکھتے۔ چینیوں نے چینی زبان اختیار کی اور ترقی کی، جاپانیوں نے جاپانی زبان اپنائی اور ترقی کی، جرمنوں نے جرمنی کو اپنایا اور دنیا میں نام کمایا، روسیوں نے روسی زبان پر افتخار کیا اور ترقی کے زینے طے کئے۔ گویا دنیا کی تمام ترقی یافتہ قوموں نے ثابت کر دیا کہ ترقی اور کامیابی کے لئے انگریزی کو اپنانا ضروری نہیں، اپنی اپنی زبانوں کو اپنا کر اور اختیار کرکے ترقی کی جاسکتی ہے بلکہ اپنی قومی زبان کو اختیار کرکے ہی ترقی کی منزلوں سے ہم کنار ہوا جاسکتا ہے۔
تو پھر کیا اردو بہت پس ماندہ زبان ہے، اس میں ما فی الضمیر پیش نہیں کیا جاسکتا، یا یہ زبان پسماندگی کی علامت ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ نہ فقط ایسا نہیں ہے بلکہ اردو ایک ترقی یافتہ زبان ہے، سرکاری سرپرستی حاصل ہوجائے تو یہ حقیقت اظہر من الشمس ہو کر ثابت ہوجائے۔ ہمارے قومی راہنما جب اس زبان میں بات کرتے ہیں تو بہتر طور پر اپنا مدعا بیان کرسکتے ہیں، زبان غیر میں مدعا بیان کرتے ہوئے ہمیشہ ایک ہچکچاہٹ رہتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہم انگریزوں یا انگریزی کی ذہنی غلامی سے اپنے آپ کو نہیں نکال پائے۔ ترقی اور آزادی کا عمل نفسیاتی بھی ہے۔ اگر ہم واقعاً ایک ترقی یافتہ قوم بننا چاہتے ہیں تو ہمیں اس نفسیاتی کیفیت سے اپنے آپ کو نکالنا ہوگا۔ اردو کو اختیار کرنے سے ہم نفسیاتی طور پر آزادی کا سفر طے کریں گے۔ زبانوں کا اختلاف اور فرق تو اللہ تعالٰی کی نشانیوں میں سے ہے۔ اردو زبان بھی آیات الٰہی میں سے ہے۔ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو اگر خود اعتمادی کی دولت سے مالا مال کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی قومی زبان پر خود بھی افتخار کرنا ہوگا اور یہ افتخار اپنی نسلوں کو ورثے میں دینا ہوگا۔
کہیں ایسا نہ ہو کہ جیسے انگریزوں کی حکمرانی کے زمانے میں ہم نے انگریزی کے سامنے سرتسلیم خم کر دیا اور نفسیاتی و روحانی غلامی کا طوق اپنے گلے میں ڈال لیا، اب چین سے آنے والی ترقی کے سامنے سپر ڈالتے ہوئے قوم چینی زبان سیکھنے، اختیار کرنے بلکہ اسے بولنے پر افتخار کرنے کے بخار میں مبتلا ہوجائے۔ ہم چینی زبان کے خلاف نہیں، نہ اسے سیکھنے کی مخالفت کر رہے ہیں، چینی ایک عظیم زبان ہے۔ ہم اردو کو ترک کرکے اور اسے کم تر سمجھ کر چینی زبان کے پیچھے بھاگنے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ بہت سے چینی اردو زبان سیکھ رہے ہیں اور بہت سے پاکستانی چینی زبان سیکھ رہے ہیں، یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔ کوئی بھی دوسری زبان سیکھنا ایک اضافی قابلیت ہے اور وہ زبان بولنے والی قوم سے رابطے کے لئے اور فکر و ثقافت کے مثبت انتقال کے لئے ضروری بھی ہے، لیکن اپنی قومی شناخت کا سودا کرتے ہوئے نہیں۔
ترقی کا راستہ اعتماد اور قومی جذبوں سے سرشاری سے جڑا ہوا ہے۔ ایک حقیقی ترقی یافتہ قوم بننے کے لئے روحانی اور فکری طور پر آزادی کو اختیار کرنا ضروری ہے۔ ہمیں اپنی قوم کے اندر ان جذبوں اور ارمانوں کو پروان چڑھانا ہوگا، تاکہ وہ نشاطِ کار کے ساتھ آگے بڑھ سکے اور باوقار طریقے سے ترقی کی منزلیں طے کرسکیں۔ غلامانہ ذہنیت اور پستی کے احساس کے ساتھ قومیں ترقی نہیں کرسکتیں۔ اپنی زبان آزاد روح کو پروان چڑھانے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ ہمیں ’’انگریزی‘‘ کی بالادستی یا کسی اور زبان کی بالادستی کی فکری کیفیت سے نکلنا ہوگا۔ ہمارے سیاسی راہنما خود آزادی کا یہ سفر طے نہ کرسکے تو قوم بھی آزاد اندیش نہیں بن سکے گی۔ قوم خود پر اعتماد اور اپنی قومی حیثیت پر افتخار سے محروم رہے گی۔ اس صورت میں حقیقی آزادی اور بھرپور آزادی، قابل فخر آزادی اور باعث انبساط و سرور آزادی کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے گا.
إرسال تعليق