ہم گدھے کھا رہے ہیں: جاوید چوہدری منگل 19 مئ 2015
آپ اگر کسی قصاب کی دکان سے قیمہ خرید رہے ہیں یا آپ نے کسی ریستوران میں کڑاہی گوشت کا آرڈر دے دیا یا آپ باربی کیو سے لطف اندوز ہورہے ہیں یا پھر آپ چپلی کباب کو للچائی نظروں سے دیکھ رہے ہیں تو آپ فوراً اپنا ارادہ بدل لیں، آپ قیمہ خریدنے کے فیصلے سے بھی منحرف ہو جائیں اور اگر ممکن ہو تو آپ چند ماہ کے لیے گوشت کی خریداری سے بھی تائب ہوجائیں، آپ کی صحت اور ایمان دونوں کے لیے بہتر ہو گا، یہ فیصلہ صرف آپ اور مجھے نہیں کرنا چاہیے بلکہ ملک کے تمام پارلیمنٹیرینز، تمام بیورو کریٹس، تمام فوجی افسروں، تمام وزراء، تمام وزراء اعلیٰ، گورنر صاحبان، وزیراعظم اور صدر صاحب کو بھی یہ فیصلہ کرلینا چاہیے کیونکہ یہ لوگ بھی یقینا ان گوشت فروشوں کا نشانہ ہیں جو اس وقت معمولی سے مالی فائدے کے لیے عوام اور خواص دونوں کو گدھے کا گوشت کھلا رہے ہیں اور ہم عوام سمیت ملک بھر کے خواص 2013 سے اس حرام خوری کے مرتکب ہیں۔
یہ معاملہ کیا ہے؟ ہمیں یہ جاننے کے لیے ذرا سا ماضی میں جانا ہو گا، ہمارے ملک میں چمڑا اور چمڑے کی مصنوعات تیسری بڑی ایکسپورٹ ہے، پاکستان نے 2014میں 957 ملین ڈالر کی چمڑے کی مصنوعات ایکسپورٹ کیں، ملک میں چمڑا صاف کرنے والی آٹھ سو بڑی ٹینریز ہیں جب کہ پانچ لاکھ لوگ اس صنعت سے وابستہ ہیں،پاکستان میں نیوزی لینڈ کے بعد دنیا کی شاندار ترین کھالیں پیدا ہوتی ہیں، پاکستان کی 2010 تک اس شعبے میں مناپلی تھی لیکن پھر چین اس شعبے میں آگیا، اس نے دنیا بھر سے کھالیں جمع کرنا شروع کر دیں، چین نے پاکستان کی چمڑے کی صنعت پر بھی دستک دی، چینی کارخانہ دار پاکستان سے بھاری مقدار میں کھالیں خریدنے لگے، چینی تاجر پاکستان آئے تو انھوں نے دیکھا ملک میں بکرے، گائے اور بھینس کا چمڑا مہنگا جب کہ گدھوں اور خچروں کی کھالیں سستی ہیں۔
تحقیق کی، پتہ چلا، پاکستان مسلمان ملک ہے، مسلمان گدھوں اور خچروں کا گوشت نہیں کھاتے،پاکستان میں جب گدھے اور خچر بیمار ہوتے ہیں تو انھیں کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے، یہ ویرانوں میں سسک سسک کر مر جاتے ہیں، گدھوں کے مرنے کے بعد شہروں کے انتہائی غریب لوگ ان کی کھال اتار لیتے ہیں اور گوشت چیلوں اور مردار خور جانوروں کے لیے چھوڑ دیا جاتاہے، یہ کھال بازار میں آٹھ سو سے بارہ سو روپے میں فروخت ہوتی تھی، یہ چینی تاجروں کے لیے بڑی خبر تھی کیونکہ گدھے اور خچر کی کھال گائے اور بھینس کی کھال سے زیادہ مضبوط اور خوبصورت ہوتی ہے، آپ اس کھال کو معمولی سا ’’فنش‘‘ کر کے گھوڑے کی کھال بنا لیتے ہیں اور گھوڑے کی کھال کا صوفہ 5 ہزار ڈالر سے شروع ہوتا ہے، چینی تاجروں نے ٹیکس اور ڈیوٹی دیکھی تو یہ بھی گائے کی کھال سے بہت کم تھی،گدھے کی پوری کھال پر صرف 8 ڈالر کسٹم ڈیوٹی اور 20 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی تھی جب کہ اس کے مقابلے میں گائے کی کھال پر مربع فٹ کے حساب سے ٹیکس وصول کیا جاتا ہے چنانچہ چینی تاجروں نے پاکستان سے گدھوں اور خچروں کی کھالیں خریدنا شروع کر دیں۔
کھالوں کی ڈیمانڈ پیدا ہوئی تو قیمت میں بھی اضافہ ہو گیا، ملک میں اس وقت گدھے کی وہ کھال جو 2013 تک صرف آٹھ سو روپے میں ملتی تھی اس کی قیمت آج بارہ ہزار سے 20 ہزار روپے ہے جب کہ اس کے مقابلے میں گائے کی کھال تین ہزار سے ساڑھے تین ہزار اور بھینس کی کھال چار ہزار سے ساڑھے چار ہزار روپے میں دستیاب ہے، پاکستان میں دو سمندری پورٹس اور 13 ڈرائی پورٹس ہیں، آپ پچھلے دو سال میں ان 15 پورٹس سے گدھوں اور خچروں کی کھالوں کی ایکسپورٹس کا ڈیٹا نکلوا کر دیکھ لیں، آپ کے 14 طبق روشن ہو جائیں گے، میں صرف کراچی پورٹ اور پورٹ قاسم کا ڈیٹا آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں، کراچی پورٹ سے جنوری 2013سے اپریل 2015 تک گدھوں کی 96 ہزار 8 سو 13 کھالیں جب کہ پورٹ قاسم سے 89 ہزار کھالیں ایکسپورٹ ہوئیں، یہ کل ایک لاکھ 85 ہزار 8 سو 13 گدھے بنتے ہیں، آپ باقی 13ڈرائی پورٹس سے بک ہونے والی کھالوں کی تعداد صرف ایک لاکھ 15 ہزار لگا لیجیے تو یہ تین لاکھ بن جائیں گے گویا پاکستان میں دو برسوں میں تین لاکھ گدھے انتقال فرما گئے۔
یہ تعداد انتہائی الارمنگ ہے کیونکہ 2013 سے قبل ملک سے گدھوں کی سالانہ صرف چار ہزار کھالیں برآمد ہوتی تھیں، اب سوال یہ ہے گدھوں کی کھالوں میں اچانک 30 گنا اضافہ کیسے ہو گیا؟ جواب بہت واضح اور سیدھا ہے، سندھ میں چالیس سے پچاس ہزار روپے میں صحت مند گدھا مل جاتا ہے، پنجاب میں اس کی قیمت 25 سے 30 ہزار روپے ہے، قصاب گدھا خریدتے ہیں، اس کا گلا کاٹتے ہیں، اس کی کھال اتارتے ہیں، یہ کھال 12 سے 20 ہزار روپے میں فروخت ہو جاتی ہے، گدھے کا وزن 150 سے 200 کلو گرام تک ہوتا ہے، کھال کے بغیر گدھے کا وزن 135 کلو رہ جاتا ہے، یہ لوگ گوشت کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بناتے ہیں اور یہ گوشت 300 روپے کلو کے حساب سے مارکیٹ میں بیچ دیا جاتا ہے،یہ گوشت چالیس سے پچاس ہزار روپے میں فروخت ہو جاتا ہے، یوں ان لوگوں کو ہر گدھے سے دس ہزار سے 20 ہزار روپے بچ جاتے ہیں۔ یہ گوشت کہاں جاتا ہے؟
اس گوشت کا 80 فیصد حصہ ان سرکاری محکموں کے ’’میس‘‘ میں چلا جاتا ہے جو ’’بلک‘‘ میں گوشت خریدتے ہیں یا وہ بڑے ہوٹل، بڑے ریستوران اور گوشت کی وہ بڑی چینز جو روزانہ سیکڑوں من گوشت خریدتی ہیں، یہ گوشت انھیں سپلائی ہو جاتا ہے،باقی بیس فیصد گوشت مارکیٹوں میں پہنچ جاتا ہے، گدھا اگر کٹا ہوا ہو، اس کی کھال اتری ہوئی ہو اور یہ قصاب کی دکان پر الٹا لٹکا ہو تو آپ خواہ کتنے ہی ماہر کیوں نہ ہوں آپ گدھے کو پہچان نہیں سکیں گے ، آپ کو وہ گدھا قصاب کی دکان پر بکرا، گائے کا بچھڑا یا پھر بھینس کا بچہ ہی محسوس ہو گا، کراچی، لاہور اور راولپنڈی کے چند کاریگر قصاب مزید فنکاری کرتے ہوئے گدھے کی ننگی گردن کے ساتھ بچھڑے کی سری لٹکا دیتے ہیں، یوں مرحوم گدھا دیکھنے والوں کو گدھا محسوس نہیں ہوتا، یہ بچھڑا لگتا ہے۔یہ معلومات کس حد تک درست ہیں، ہم اب اس سوال کی طرف آتے ہیں، مجھے ابتدائی معلومات اس مکروہ دھندے سے وابستہ ایک شخص نے دیں، یہ شخص توبہ تائب ہوگیا، اس نے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی اور مجھ سے رابطہ کیا۔
اس کا دعویٰ تھا ملک کے تمام مقتدر عہدیدار اس وقت تک گدھے کا گوشت کھا چکے ہیں کیونکہ مکروہ کاروبار سے وابستہ لوگ جان بوجھ کر ان ایوانوں میں گوشت پہنچا رہے ہیں جو ملکی پالیسیاں بناتے ہیں، اس صاحب کا دعویٰ تھا یہ لوگ اس سلوک کے حق دار ہیں کیونکہ ملک میں اچانک گدھوں کی کھال کی ڈیمانڈ بڑھ گئی، ملک سے گدھے کم ہونے لگے اور گوشت کی قیمتوں میں کمی ہوگئی لیکن یہ لوگ خواب غفلت کے مزے لوٹتے رہے، ان میں سے کسی نے کسی سے نہ پوچھا ’’گدھوں کی کھالوں کی ایکسپورٹ میں کیوں اضافہ ہو رہا ہے؟ اور اس اضافے کے عوام پر کیا اثرات ہوں گے؟‘‘چنانچہ یہ لوگ دو برسوں سے اس بے حسی کا نقصان اٹھا رہے ہیں، یہ جانتے ہی نہیں ان کی ڈائننگ ٹیبل اور ان کے کچن میں کیا ہو رہا ہے اور انھیں گوشت سپلائی کرنے والے ان کے ساتھ کیا کر رہے ہیں۔
یہ سطریں اگر وزیراعظم، صدر مملکت، وزیرخزانہ، سیکریٹری خزانہ، وزیر داخلہ، وزراء اعلیٰ اور ایف بی آر کے حکام تک پہنچ جائیں تو میری ان سے درخواست ہے، آپ فوری طور پر گدھوں کی کھالوں کی ایکسپورٹ کا ڈیٹا منگوائیں، اس ڈیٹا کا تجزیہ کریں اور اس کے بعد گدھوں کی کھال کی ایکسپورٹ پر پابندی لگا دیں، آپ اس کے بعد حرام جانوروں کی کھالوں کے لیے کوئی ٹھوس پالیسی بنائیں، میری عام شہریوں سے بھی درخواست ہے آپ گوشت خود خریدا کریں، آپ قصاب کی دکان پر خود جائیں اور اپنی نظروں کے سامنے گوشت کٹوائیں، میرے چند دوستوں نے گوشت کے سلسلے میں باقاعدہ ’’مافیا‘‘ بھی بنا رکھا ہے، یہ چار لوگ مل کر بکرا خریدتے ہیں، اسے اپنے سامنے ذبح کراتے ہیں، گوشت بنواتے ہیں اور گوشت کے چار حصے کر لیتے ہیں، یہ پانچ دس لوگ مل کر گائے بھی خرید لیتے ہیں، یہ اس کا گوشت بھی آپس میں تقسیم کر لیتے ہیں، یہ لوگ قیمہ گھر پر اپنی مشین پر بناتے ہیں، یہ بھی اچھا فارمولا ہے کیونکہ صحت اور ایمان انسان کے قیمتی ترین اثاثے ہوتے ہیں، انسانوں کو ان اثاثوں کی حفاظت کرنی چاہیے، میری وزیراعظم اور وزیرخزانہ سے درخواست ہے آپ ایک لمحے کے لیے اپنے سالن کے ڈونگے میں جھانک لیں، مجھے یقین ہے آپ گدھوں کی کھالوں کی ایکسپورٹ پر پابندی لگانے پر مجبور ہو جائیں گے۔
اشاعت بشکریہ روزنامہ ایکسپریس
إرسال تعليق