مظفر گڑھ: پاکستان کے صوبہ پنجاب کے جنوبی شہر مظفر گڑھ میں کالعدم تنظیم لشکرِ جھنگوی کے سربراہ ملک اسحاق ، اپنے 2 بیٹوں اور 11 ساتھیوں مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک ہو گئے۔
ڈان نیوز کے مطابق کالعدم تنظیم کے سربراہ ملک اسحاق اور ان کے بیٹوں عثمان اور حق نواز کو اسلحے کی نشاندہی کے لیے مظفرگڑھ لے جایا گیا۔
مظفر گڑھ میں شاہ والا میں پولیس پر دہشت گردوں اور اشتہاریوں نے فائرنگ کی۔
فائرنگ کے تبادلے میں چھ پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے۔
واضح رہے کہ ملک اسحاق اور ان کے دونوں بیٹوں کو ایک ہفتہ قبل کاؤنٹر ٹیررزم ڈپارٹمنٹ (ای ٹی ڈی) نے گرفتار کیا تھا۔
گرفتاری کے بعد تفتیش کے دوران انکشاف ہونے پر مظفر گڑھ میں شاہ والا میں اسلحہ برآمد کرنے کے لیے لے جایا گیا۔
سیکیورٹی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ملک اسحاق کو فرار کروانے کے لیے حملہ کیا گیا مگر اس دوران مبینہ مقابلہ ہوا جس میں عسکریت پسند ہلاک ہوئے جبکہ 6 اہلکار زخمی ہو گئے۔
سی ٹی ڈی کے ترجمان نے بتایا کہ تمام افراد کا تعلق کالعدم لشکر جھنگوی سے تھا اور زیر حراست افراد کو اسلحہ برآمد کرنے کے لیے مظفر گڑھ لے جایا گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس مظفر گڑھ سے نشاندہی کے بعد اسلحہ برآمد کرکے واپس آ رہی تھی، جب 12 سے 15 مسلح افراد موٹر سائیکلوں پر آئے، جو اسلحے کے زور پر ملک اسحاق اور ان کے بیٹوں کو موٹر سائیکلوں پر ساتھ لے جانے کامیاب بھی ہو گئے۔
مبینہ مقابلے کے حوالے سے بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان کے فرار ہونے کے بعد کاؤنٹر ٹیررزم پولیس کے مقامی ایس ایچ کو مطلع کیا گیا جو کہ اس وقت اسی علاقے میں گشت پر تھے۔
سی ٹی ڈی ترجمان کے مطابق ایس ایچ او نے مفرور ملزمان کا تعاقب کیا تعاقب کے دوران ہی مقابلہ ہوا جس سے پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے جن کو اسپتال منتقل کیا گیا۔
ہلاکتوں کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ 14 عسکریت پسند مقابلے میں مارے گئے جن میں ملک اسحاق، ان کا نائب غلام رسول شاہ اور دیگر حملہ آور بھی شامل تھے۔
حملہ آوروں سے بھی بڑے پیمانے پر ہتھیار برآمد ہوئے ہیں ، حملے کے حوالے سے تفتیش شروع کر دی گئی ہے۔
تمام ہلاک شدگان کی میتیں پوسٹ مارٹم کے لیے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال منتقل کی گئیں جبکہ ملک اسحاق اور ان کے بیٹوں کی لاشیں رحیم یار خان منتقل کی جائیں گی جو ان کا آبائی علاقہ ہے۔
خیال رہے کہ لشکر جھنگوی کو پاکستان کی فرقہ وارانہ طور پر سب سے متشدد تنظیموں میں شمار کیا جاتا تھا جس پر 90 کے عشرے میں دیگر فرقوں کے افراد قتل کرنے کے الزامات ہیں۔
لشکر جھنگوی کا تعلق عالمی شدت پسند تنظیم القاعدہ سے بھی تھا۔
جنرل پرویز مشرف نے 10 سال قبل اپنے دور حکومت میں لشکر جھنگوی پر پابندی عائد کر دی تھی۔
کالعدم لشکر جھنگوی کے سربراہ ملک اسحاق پر قتل کے متعدد مقدمات تھے، ان کو 1997 میں گرفتار کیا گیا تھا البتہ 14 سال جیل میں رہنے کے بعد 2011 میں ان کو جیل سے رہائی مل گئی۔
2011 کے بعد سے ملک اسحاق کو عمومی طور پر نظر بند ہی رکھا گیا۔
2013 میں کوئٹہ میں ہزارہ برادری پر ہونے والے حملوں کے بعد ان کو ایک بار پھر گرفتار کیا گیا۔
یاد رہے کہ ہزارہ برادری پر پہلا حملہ 10 جنوری 2013 میں ہوا تھا جس میں 92 افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ 16 فروری 2013 کو ہونے والے حملے میں 89 افراد مارے گئے تھے، ان حملوں کی ذمہ داری لشکر جھنگوی نے ہی قبول کی تھی۔
ملک اسحاق کو مبینہ طور پر سری لنکا کی ٹیم پر ہونے والے حملے کا ماسٹر مائنڈ بھی مانا جاتا ہے۔
2009 میں سری لنکن ٹیم پر ہونے والے حملے میں 9 کھلاڑی زخمی ہوئے تھے، جبکہ اس میں 8 پاکستانی شہریوں کی ہلاکت ہوئی تھی۔
سری لنکا کی ٹیم پر ہونے والے حملے کے بعد پاکستان 2011 کرکٹ ورلڈ کپ سے محروم ہو گیا تھا۔ بحوالہ ڈان نیوز
Express Tribune
LeJ chief Malik Ishaq killed in Muzaffargarh police encounter
MUZAFFARGARH: Chief of the banned Lashkar-e-Jhangvi (LeJ) Maliq Ishaq along with 13 militants were killed in Muzaffargarh on Wednesday during a shootout after gunmen attacked a police convoy and freed him as he was being moved, police said.
According to initial information, LeJ chief Malik Ishaq along with his two sons were being taken by counter terrorism department (CTD) officials to a town of Muzaffargarh where they had seized an arms cache to identify men they had detained on suspicion of being members of Ishaq’s group.
As the police convoy returned in the early hours of Wednesday, a group of men on motorcycles ambushed them near Shahwala Jungle in a bid to release Ishaq. Fourteen suspected militants, including the LeJ chief, were killed in the ensuing gun battle.
Ishaq’s two sons, Usman and Haq Nawaz, Ghulam Rasool of the LeJ and his two sons were also killed. Further, CTD Punjab said six members of the anti-terrorism force (ATF) were also injured in the encounter.
Read: Malik Ishaq held for two more weeks in murder case
“Twelve to 15 terrorists attacked the police party… freed the accused and fled away on motorcycles,” a police spokesperson, Nabila Ghazanfar, quoted a policemen in the area as saying in a message. Police further along the road attacked the gunmen as they were fleeing, killing Ishaq, his two sons, and 11 others, Ghazanfar cited the policemen as saying in his message.
Ishaq’s postmortem is currently underway at District Headquarters Hospital, Muzaffargarh. The bodies of the dead and the injured officials were shifted to the District Headquarters (DHQ) Hospital in Muzaffargarh. All gates of the hospital were sealed soon after.
Read: Anti-terror court acquits Malik Ishaq of hate speech
“Ten of the 14 militants killed in the encounter belonged to al Qaeda,” a CTD spokesperson told Express News. Further, he said they are seeking NADRA’s help in identifying the deceased.
Ishaq was on a US list of global terrorists and the group he founded has claimed responsibility for the deaths of hundreds of civilians. He has faced several murder trials but always been acquitted after witnesses refused to testify against him.
He was arrested again on Saturday, under a Maintenance of Public Order act, along with his two sons.
Ishaq’s supporters protest in Rahim Yar Khan
Soon after news of the LeJ chief’s death broke, his followers took to the streets of Rahim Yar Khan and attacked police vans.
A demonstration is also reportedly taking place outside Ishaq’s Rahim Yar Khan residence. Further, reports suggest demonstrations are also gathering momentum in Dera Ghazi Khan and Bahwalpur.
In the wake of this, Punjab police has increased security across the province. Further, all processions and gatherings of the Shia community have been requested to be minimised or temporarily suspended for security reasons.
إرسال تعليق