سٹریٹیجک ڈائیلاگ: ’لشکر طیبہ، جیش محمد خطے کے لیے بڑا خطرہ‘
بی بی سی اردو: بھارت اور امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف باہمی تعاون میں تیزی لانے کا اعلان کرتے ہوئے لشکر طیبہ، جیش محمد، ڈی کمپنی، القاعدہ اور حقانی نیٹ ورک کو جنوبی ایشیا کے استحكام کے لیے ایک بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔
واشنگٹن میں سٹریٹیجک اور تجارتی شراکت پر دو دنوں تک جاری رہنے والی ملاقات کے بعد دونوں ملکوں نے پہلی بار دہشت گردی کے خلاف ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے۔
اس بیان میں دونوں ہی ملکوں نے پاکستان سے ممبئی پر ہوئے حملے کے گناہ گاروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ بھارت کی وزیر خارجہ سشما سوراج کا کہنا تھا کہ انہیں خوشی ہے کہ امریکہ نے بھارت کی پریشانیوں کو سمجھا ہے اور دہشت گردی کے خلاف ساتھ مل کر کارروائی کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
اس مشترکہ بیان میں گرداس پور اور اودھم پور میں گذشتہ دنوں ہوئے شددت پسند حملوں پر بھی سخت تنقید کی گئی ہے۔
امریکہ اور بھارت نے اپنے آپ کو دولت اسلامیہ کہلانے والی شدت پسند تنظیم کو ایک بڑا خطرہ قرار دیتے ہوئے اس کو شکست دینے کے لیے مل کر کام کرنے کی بھی بات کی۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا کہ گذشتہ چھ برسوں میں امریکی خفیہ اداروں نے اتحادی ملکوں، خاص طور سے بھارت کے ساتھ مل کر کوشش کی ہے کہ حملوں کو انجام دینے سے پہلے ہی روکا جا سکے۔
’ممبئی حملوں کے بعد اس طرح کی کوششیں تیز ہوئی ہیں اور ہم جانتے ہیں یہ آسان کام نہیں ہے۔ لیکن ہماری کوشش یہی ہے کہ ہم ان حملوں کو پہلے ہی روک سکیں۔‘
انھوں نے کہا کہ افغانستان میں امن کے لیے بھی دونوں ملکوں نے باہمی تعاون جاری رکھنے کی بات کی ہے۔
دہشت گردی کے علاوہ اس ڈائیلاگ میں باہمی تجارت میں پانچ گنا اضافہ کرنے کی کوششوں پر بھی بات چیت ہوئی۔
امریکی وزیر تجارت پینی پرذكر کا کہنا تھا کہ اسی ہفتے بھارت نے امریکی کمپنی بوئنگ سے اپاچی اور چنوک ہیلی کاپٹر خریدنے کا جو معاہدہ کیا ہے وہ ظاہر کرتا ہے کہ وزیر اعظم مودی بھارت کو کاروبار کے لیے آسان جگہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
کہا جا رہا ہے کہ دو دنوں کی اس بات چیت نے 28 ستمبر کو نیویارک میں صدر اوباما اور وزیر اعظم مودی کی ہونے والی ملاقات کا ایجنڈا طے کر دیا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اوباما حکومت میں شاید یہ آخری موقع ہوگا کہ دونوں ملک آنے والے دنوں میں باہمی تعلقات کی سمت کو طے کر سکیں۔
إرسال تعليق