بی بی سی اردو سے
بھارتی حکام کو پاکستانی سرحد کے نزدیک واقع پٹھان کوٹ فوجی ہوائی اڈّے پر ہونے والے حملے پر قابو پانے میں چار دن لگ گئے جبکہ اس حملے میں سات بھارتی فوجی ہلاک اور 22 زخمی ہوئے ہیں۔ دفاعی تجزیہ کار راہول بیدی کے خیال میں اس سکیورٹی آپریشن کو بیان کرنے کے لیے بدنظمی کے الفاظ ہی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
سرکاری اطلاعات کے مطابق قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول کے پاس پہلے سے یکم جنوری کو ایک حملے کی منصوبہ بندی کی معلومات موجود تھیں۔
پٹھان کوٹ: سوالات زیادہ اور جوابات کم
تاہم دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حملوں کا جواب دینے میں بھارت کا رویہ سمجھدارانہ نہیں تھا۔ بھارت کی جانب سے ناکافی جارحانہ اقدامات اٹھائے گئے، کئی اقسام کی افواج کی شمولیت اور مناسب دفاعی سامان کی غیر موجودگی نے اس آپریشن کو ناکامی کے نزدیک پہنچا دیا تھا۔
جس وقت حملوں کا آغاز ہوا قومی سلامتی کے مشیر ڈوول نے دہلی کے نواح میں واقع منیسر فوجی اڈّے سے نیشنل سکیورٹی گارڈز کے 150 اہلکاروں کو ہوائی جہاز کے ذریعے غیر مانوس ماحول میں لڑنے کے لیے بھیجنے کا انتخاب کیا۔
اس مشن کی آپریشنل کمانڈ این ایس جی، ڈیفنس سروس کور (ڈی ایس سی)، اور بھارتی فضائیہ کے خصوصی فوجی دستوں کو سونپ دی گئی تھی۔
پٹھان کوٹ آپریشن میں شامل تمام سکیورٹی ایجنسیوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو یہ ایک لائحہ عمل تک نہ پہنچ پانے اور موثر طریقہ عمل پر متفق نہ ہونے کا نتیجہ تھا۔۔۔ایسی کھلی اور محدود جگہ پر جہاں عام شہریوں کو کسی قسم کا خطرہ پہنچنے کا احتمال نہ ہونے کے برابر ہو، صرف پانچ یا چھ شدت پسندوں کو ہلاک کرنے میں چار دن لگ جانا قابل قبول نہیں ہے۔
میجر جنرل شیرو تھاپلیال
ڈی ایس سی ریٹائرڈ اور جذبے سے عاری اہلکاروں پر مشتمل تھی جبکہ سپیشل فورسز کے جوان مشن میں شامل دیگر فورسز کے ساتھ مل کر کام کرنے کی جدوجہد میں ہی لگے رہے۔
تمام تر آپریشن کو خود کنٹرول کرنے کی واضح خواہش میں ڈوول نے ان تقریباً 50 ہزار فوجی جوانوں کو نظرانداز کر دیا جو کہ پہلے ہی پٹھان کوٹ کے علاقے میں موجود تھے۔
خیال رہے کہ پورے ملک میں کسی محدود علاقے میں فوجیوں کی موجودگی کی یہ ممکنہ طور پرسب سے زیادہ تعداد ہے۔
اطلاعات کے مطابق ڈوول نے آرمی چیف سے بیک اپ سپورٹ کےلیے محض 50 سے 60 فوجی جوان مہیا کرنے کی درخواست کی تھی۔
سکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ فوج کشمیری عسکریت پسندوں کا مقابلہ کرنے کا تجربہ رکھتی ہے۔
این ایس جی کے جوان اور افسر اس علاقے سے ناواقف تھے اور اسی وجہ سے اسے وہ نقصانات اٹھانا پڑے جن سے باآسانی بچا جا سکتا تھا جن میں لیفٹیننٹ کرنل نرنجن کمار کی ہلاکت بھی شامل ہے۔
وہ عسکریت پسند کی لاش تلے دبے بم کے دھماکے میں مارے گئے تھے۔ اس دھماکے میں این ایس جی کے چار اہلکار زخمی بھی ہوئے۔
ان تقریباً 50 ہزار فوجی جوانوں کو آپریشن کے دوران نظرانداز کر دیا گیا جو پٹھان کوٹ میں پہلے سے موجود تھے
ایسی فوج جس کو عسکریت پسندوں سے نمٹنے کا تجربہ ہوتا، ممکنہ طور پر انھیں عسکریت پسندوں کے اس ہتھکنڈے سے بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا تھا جس میں آخری چارے کے طور پر بم کی پن نکال کے عسکریت پسند اس پر لیٹ جاتے ہیں تاکہ بم نظر نہ آئے۔
عسکری ذرائع کے مطابق این ایس جی کو آلات کی تنگی کا بھی سامنا رہا، ان کے پاس تاریکی میں دیکھنے والے مخصوص آلات بھی نہیں تھے اور نہ ہی پٹھان کوٹ میں درپیش حالات سے نمٹنے کے لیے دیگر ضروری سامان ان کے پاس تھا۔
چار روز تک جاری رہنے والے آپریشن کے دوران فوج کو کوئی خاص کردار ادا کرنے نہیں دیا گیا۔
تاہم لڑائی کو 48 گھنٹے سے زائد گزرنے اور وزیر اعظم نریندر مودی، وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ، وزیر دفاع منوہر پاریکر سمیت دیگر وزرا کی جانب سے آپریشن کی کامیابی کے اعلان کے بعد تقریباً دو سو فوجیوں کی تعیناتی کر دی گئی۔
چار شدت پسندوں کی ہلاکت کے بعد مبارکباد کے پیغامات آنا شروع ہوگئے تھے تاہم اس کے بعد فائرنگ کا ایک نیا سلسلہ پھر شروع ہوا۔
فائرنگ کے نئے سلسلے کے بعد اہم سوال یہ پیدا ہوگیا تھا کہ فوجی ہوائی اڈّے کے گرد 12 سو ہیکٹر پر پھیلی قدآور گھاس میں آخر کتنے مسلح حملہ آور چھپے ہوئے ہیں۔
چار شدت پسندوں کی ہلاکت کے بعد مبارکباد کے پیغامات آنا شروع ہوگئے تھے تاہم اس کے بعد فائرنگ کا ایک نیا سلسلہ پھر شروع ہوا
عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ پیر کو رات گئے تک فوجی اڈّے کے اندر وقفے وقفے سے ہونی والی فائرنگ کے درمیان دستی بموں کے دھماکوں کی گونج بھی سنائی دیتی رہی تھی تاہم وہ اندر کے زمینی حقائق کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے تھے۔
پیر کی شام ڈپٹی این ایس جی کمانڈنٹ میجر جنرل دُشنت سنگھ کا کہنا تھا کہ ’عسکریت پسندوں کے خاتمے کے لیے جاری آپریشن اس وقت آخری مراحل میں ہے۔‘
وزیر دفاع پاریکر نےمنگل کے روز پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ ’چھ مسلح شدت پسندوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے‘ تاہم ان کا مزید کہنا تھا کہ فوجی اڈّے کو شدت پسندوں سےمکمل طور پر صاف قرار دینے میں ابھی خاصا وقت درکار ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے آپریشن میں کچھ کمی نظر آتی ہے لیکن میں نہیں سمجھتا کہ سلامتی پر ہم نے کوئی سمجھوتہ کیا ہے۔‘
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نومبر 2008 میں ممبئی پر حملوں کے دوران کی گئی عملی غلطیاں اور کوتاہیاں پٹھان کوٹ واقعے میں بھی واضح طریقہ کار کی غیر موجودگی کے باعث ایک بار پھر اسی لاپرواہی سے دہرائی گئی ہیں۔
یاد رہے کہ 2008 کے ممبئی حملوں میں 166 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
ممبئی میں 10 مسلح افراد کے خلاف ابتدائی طور پر مقامی پولیس کو استعمال کیا گیا تھا تاہم بعد میں ان کی جگہ بھارتی بحریہ کی میرین کمانڈوز سپیشل فورسز (ایم اے آرسی او ایس) نے لے لی تھی۔
بعد ازاں ایم اے آر سی او ایس سے فوجی کمانڈوز نے حملوں کی تین جگہوں کا چارج لے لیا تھا جن میں دو ہوٹل اور ایک یہودی ثقافتی مرکز شامل تھا۔
این ایس جی کی جگہ بالآخر بھارت فوج نے لے لی تھی جنھیں ممبئی پہنچنے میں تقریباً 12 گھنٹے لگے تھے۔
عسکری تجزیہ کار میجر جنرل شیرو تھاپلیال کہتے ہیں کہ ’پٹھان کوٹ آپریشن میں شامل تمام سکیورٹی ایجنسیوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو یہ ایک لائحہ عمل تک نہ پہنچ پانے اور موثر طریقہ عمل پر متفق نہ ہونے کا نتیجہ تھا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ایسی کھلی اور محدود جگہ پر جہاں عام شہریوں کو کسی قسم کا خطرہ پہنچنے کا احتمال نہ ہونے کے برابر ہو، صرف پانچ یا چھ شدت پسندوں کو ہلاک کرنے میں چار دن لگ جانا قابل قبول نہیں ہے۔‘
اس پورے آپریشن کی ایک جو مثبت بات سامنے آئی وہ یہ ہے کہ سکیورٹی فورسز فضائیہ کی اہم ملکیت یعنی مِگ -21 جنگی جہازوں اور ہیلی کاپٹروں کو شدت پسندوں سے بچانے میں کامیاب رہے ہیں۔
إرسال تعليق