کہا: تخلیق فن؟ بولے: بہت دُشوار تو ہو گی
کہا: مخلُوق؟ بولے: باعثِ آزار تو ہو گی
کہا: ہم کیا کریں اِس عہد ِناپُرساں میں، کچھ کہیے
وہ بولے: کوئی آخر صُورت ِاظہار تو ہو گی
کہا: ہم اپنی مرضی سے سفر بھی کر نہیں سکتے
وہ بولے: ہر قدم پر اِک نئی دیوار تو ہو گی
کہا: آنکھیں نہیں! اِس غم میں بینائی بھی جاتی ہے
وہ بولے: ہجر کی شب ہے ، ذرا دُشوار تو ہو گی
کہا: جلتا ہے دل، بولے: اِسے جلنے دیا جائے
اندھیرے میں کِسی کو روشنی درکار تو ہو گی
کہا: یہ کوچہ گری اور کتنی دیر تک آخر؟
وہ بولے: عشق میں مٹی تمہاری خوار تو ہو گی
شاعر : اعتبار ساجد
شیئر کیا ہے: شگفتہ فرام کراچی
إرسال تعليق