یہ رونقیں یہ لوگ یہ گھر چھوڑ جاؤں گا،
اک دن میں روشنی کا نگر چھوڑ جاؤں گا،
مرنے سے پیشتر مری آواز مت چرا،
میں اپنی جائداد ادھر چھوڑ جاؤں گا،
قاتل مرا نشان مٹانے پہ ہے بضد،
میں سناں کی نوک پہ سر چھوڑ جاؤں گا،
تو نے مجھے چراغ سمجھ کر بجھا__دیا،
لیکن ترے لیے میں سحر چھوڑ جاؤں گا،
آئندہ نسل مجھ کو پڑھے گی غزل غزل،
میں حرف حرف اپنا ہنر چھوڑ جاؤں گا،
تم اپنے آبلوں کو بچاتے ہو کس لیے؟
میں تو سفر میں رخت سفر چھوڑ جاؤں گا،
میں اپنے ڈوبنے کی علامت کے طور پر،
دریا میں ایک آدھ بھنور چھوڑ جاؤں گا،
لشکر کریں گے میری دلیری پہ تبصرے،
مر کر بھی زندگی کی خبر چھوڑ جاؤں گا،
محسن میں اس کے زخم خریدوں گا ایک دن،
اور اس کے پاس لعل و گہر چھوڑ جاؤں گا،
"محسن نقوی"
إرسال تعليق