نظر ملا کے ذرا دیکھ مت جھکا آنکھیں
بڑھا رہی ہیں نگاہوں کا حوصلہ آنکھیں
جو دل میں عکس ہے آنکھوں سے بھی وہ چھلکے گا
دل آئینہ ہے مگر دل کا آئینہ آنکھیں
وہ اک ستارا تھا جانے کہاں گرا ہو گا
خلا میں ڈھونڈ رہی ہیں نہ جانے کیا آنکھیں
قریب جاں دم خلوت مگر سرمحفل
ہیں اجنبی سے بھی بڑھ کر وہ آشنا آنکھیں
غم حیات نے فرصت نہ دی ٹھہرنے کی
پکارتی ہی رہیں مجھکو صدا آنکھیں
تباہیوں کا کسی نے اگر سبب پوچھا
زبان حال نے بے ساختہ کہا آنکھیں
جھٹک چکا تھا میں گرد ملال چہرے سے
چھپا سکیں نہ مگر دل کا ماجرا آنکھیں
یہ اس کا طرز تخاطب بھی خوب ہے محسن
إرسال تعليق