How #Tahira of Swat becomes computer expert from a domestic servant - read this inspirational story



طاہرہ: گھریلو ملازمہ سے کمپیوٹر ماہر کیسے بنی ؟

سوات کی سترہ سالہ طاہرہ ایک ایسی سماجی کارکن ہے جو ٹیکنالوجی کے ذریعے معاشرتی تبدیلی پر یقین رکھتی ہے۔ ٹیک جوس نامی کمپنی نے انہیں پچیس برس سے کم عمر بہترین سوشل ایکٹیکوسٹ کا اعزاز دیا ہے۔

مینگورہ شہرسے تعلق رکھنے والی سترہ سالہ طاہرہ محمد نے کم عمری میں ہی انفارمیشن ٹیکنالوجی میں نام کما لیا ہے۔ ٹیک جوس نامی ادارے کی جانب سے ایک لسٹ شائع کی گئی جس میں ملک بھر کے ایسے 25 سرگرم سماجی کارکنان کے نام شامل کیے گئے ہیں جن کی عمر 25 برس سے کم ہے۔ یہ وہ افراد ہیں جنہوں نے ٹیکنالوجی کے ذریعے معاشرے کی بھلائی کا کام کیا ہے۔ طاہرہ کا نام اس فہرست میں پہلے نمبر پر ہے۔

طاہرہ گیارہویں جماعت کی طالبہ ہونے کے ساتھ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا ایک کورس بھی کر چکی ہے۔ اس نے دو سافٹ ویئر بھی بنائے ہیں جن میں ایک خواتین کے حقوق اور دوسرا لوکل گورنمنٹ کے لیے بنایا ہے۔ طاہرہ نے ڈی ڈبلیو کوبتایا،’’جو سافٹ ویئر خواتین کے حقوق کے لیے بنایا گیا ہے اس میں کوئی بھی شخص خواتین کو درپیش مسائل اورخواتین کے ساتھ ہونے والی بد سلوکیوں کی تفصیلات جمع کرا سکتا ہے۔‘‘ اپنے دوسرے سافٹ ویئر کے بارے میں طاہرہ نے بتایا کہ لوکل گورنمنٹ کے سافٹ ویئر میں ڈیتھ سرٹیفکیٹ، برتھ سرٹیفکیٹ اور شادی وغیرہ کے سرٹیفکیٹس آسانی سے بنائے جا سکتے ہیں جن کا ریکارڈ محفوظ ہو گا اور ایک کلک پر لوگوں کا ڈیٹا معلوم کیا جا سکے گا۔‘‘

گزشتہ پندرہ سالوں سے اپنی والدہ کے ساتھ ایک کمرے کے مکان میں رہائش پذیر طاہرہ غربت، بے بسی اور افلاس کا مقابلہ کرتی رہی ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے طاہرہ نے کہا کہ بہت چھوٹی عمر میں اس کے والد کا انتقال ہو گیا تھا۔ والد کے انتقال کے بعد اس نے اور اس کی ماں نے لوگوں کے گھروں میں کام شروع کیا تاکہ گھریلو اخراجات کو پوار کیا جا سکے۔ طاہرہ اس لحاظ سے خوش قسمت تھی کہ جس گھر میں وہ کام کرتی تھی انہوں نے طاہرہ کے تعلیم حاصل کرنے کے شوق کو دیکھتے ہوئے اسے اسکول میں داخل کروا دیا۔

طاہرہ نے ’شی ٹیک‘ نامی ایک گروپ بنایا ہے جس میں وہ لڑکیوں کو کمپیوٹر کی تعلیم فراہم کرتی ہے

طاہرہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’میرا کوئی بھائی یا بہن نہیں، میری ماں لوگوں کے گھروں میں کام کرتی تھی،گزشتہ سال جب میری والدہ بیمار ہوئیں تو گھر کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے میں نے پرائیویٹ اسکول میں بچوں کو پڑھانا شروع کیا ،اسکول سے ملنے والے پیسوں سے گھر کے اخراجات بمشکل سے پورے ہوتے ہیں۔‘‘

طاہرہ محمد اپنے علاقے کی لڑکیوں کو ٹیکنالوجی کے میدان میں لانا چاہتی ہے۔ اس نے ’شی ٹیک‘ نامی ایک گروپ بنایا ہے جس میں وہ لڑکیوں کو کمپیوٹر کی تعلیم فراہم کرتی ہے۔ طاہرہ چاہتی ہے کہ وہ سوات کی بچیوں کے لیے ایک کوڈنگ اسکول قائم کرے تاکہ وہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے بڑھ سکیں۔

طاہرہ کی والدہ بھی اس کی محنت اور لگن پر فخر محسوس کرتی ہیں، ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے طاہرہ کی والدہ، رحم بی بی نے کہا،’’ میرا طاہرہ کے سوا کوئی اور نہیں ہے، میں چاہتی ہوں کہ طاہرہ کی محنت اور جدوجہد رنگ لائے اور ملک و قوم کا نام روشن ہو۔‘‘ انہوں نے کہا،’’ مجھے اپنی بیٹی پر یقین ہے اور میں نے ہمیشہ اس کی حوصلہ افزائی کی ہے، جس طرح وہ محنت کر رہی ہے وہ دن دور نہیں جب میری بیٹی اپنے ملک کا نام روشن کرے گی۔‘‘

مینگورہ شہرسے تعلق رکھنے والی سترہ سالہ طاہرہ محمد نے کم عمری میں ہی انفارمیشن ٹیکنالوجی میں نام کما لیا ہے

غیر سرکاری تنظیم ’دی اویکننگ‘ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر عرفان حسین بابک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ طاہرہ نے جس میدان میں مہارت حاصل کی ہے اس سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ سوات کی بچیاں کسی سے کم نہیں۔ انہوں نے کہا، ’’ملالہ کے بعد سوات میں کئی بچیوں نے علاقے کا نام روشن کیا لیکن جو کام طاہرہ نے اتنی کم عمری میں کیا اس کی مثال نہیں ملتی، حکومتی اداروں اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے محکموں کو چاہیے کہ وہ طاہرہ کی ہر ممکن مدد کریں تاکہ اس کی حوصلہ افزائی ہو اور وہ مزید محنت اور لگن سے کام کر سکے‘‘۔

وادی سوات کی طاہرہ اور اس جیسی محنتی طالبات کی حوصلہ افزائی کی جائے اور اُنہیں وسائل فراہم کیے جائیں تو کامیابی ان سب کا مقدر بن سکتی ہے۔

زریعہ اشاعت ڈی ڈبلیو اردو

Post a Comment

أحدث أقدم