وہ کافر آشنا ، نا آشنا یوں بھی ہے اور یوں بھی
ہماری ابتدا تا انتہا یوں بھی ہے اور یوں بھی
تعجب کیا اگر رسمِ وفا یوں بھی ہے اور یوں بھی
کہ حُسن و عشق کا ہر مسئلہ یوں بھی ہے اور یوں بھی
کہیں ذرہ، کہیں صحرا، کہیں قطرہ ، کہیں دریا
مُحبت اور اُس کا سلسلہ یوں بھی ہے اور یوں بھی
وہ مُجھ سے پُوچھتے ہیں ایک مقصد میری ہستی کا
بتاؤں کیا کہ میرا مُدعا یوں بھی ہے اور یوں بھی
ہم اُن سے کیا کہیں وہ جانیں اُن کی مصلحت جانے
ہمارا حالِ دل تو برملا یوں بھی ہے اور یوں بھی
نہ پا لینا تیرا آسان نہ کھو دینا تیرا ممکن
مُصیبت میں یہ جانِ مُبتلا یوں بھی ہے اور یوں بھی
انتخاب از کلیاتِ جگر مراد آبادی
إرسال تعليق