ریمنڈ ڈیوس۔ پس منظر :- پڑھئے جاوید چوہدری کا کالم
میری جنرل احمد شجاع پاشا کے ساتھ چار ملاقاتیں ہیں‘ پہلی ملاقات 27 نومبر 2008ءکو ہوئی‘ یہ اس وقت تازہ تازہ ڈی جی آئی ایس آئی بنے تھے‘ 26 نومبر کو ممبئی حملے ہوئے‘ اجمل قصاب گرفتار ہوا اور بھارتی میڈیا نے پاکستان کے خلاف الزامات کی توپوں کے دہانے کھول دیئے‘ جنرل پاشا نے چھ صحافیوں کو اپنے دفتر دعوت دی‘ میں بھی ان صحافیوں میں شامل تھا‘
مجھے اس ملاقات میں جنرل پاشا کی تین خوبیوں نےانسپائر کیا‘ یہ جواب دیتے ہوئے ہر صحافی کو اس کے نام سے مخاطب کرتے تھے‘ یہ ثابت کرتا تھا وہ ہم میں سے ہر شخص کو ذاتی طور پر جانتے ہیں‘ دوسری ان کی آنکھوں میں ایک عجیب قسم کی مسکراہٹ تھی‘ یہ ہونٹوں کی بجائے آنکھوں سے مسکراتے تھے اور تیسری‘ یہ کوئی بات چھپا نہیں رہے تھے‘ ہم نے ان سے جو پوچھا جنرل پاشا نے وہ سچ سچ بتا دیا چنانچہ میں ان سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا‘ دوسری ملاقات ایبٹ آباد آپریشن کے بعد ہوئی‘ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور جنرل پاشا نے جی ایچ کیو میں صحافیوں کو دعوت دی‘ ملاقات میں میرے ایک تکنیکی قسم کے سوال نے پاشا صاحب کے ساتھ تعلقات کے دروازے کھول دیئے‘ تیسری ملاقات مارچ 2014ءمیں ہوئی‘ یہ ریٹائر ہو چکے تھے‘ عمران خان کا دھرنا منصوبہ بندی کے عمل سے گزر رہا تھا‘ میں نے جنرل پاشا سے رابطہ کیا اور انہوں نے مجھے لنچ کی دعوت دے دی‘ ہم اسلام آباد کے ایک ریستوران میں ملے‘ اڑھائی گھنٹے گفتگو کی‘ میں ان سے سوال پوچھتا رہا اور یہ ایمانداری سے جواب دیتے رہے‘ میں نے بعد ازاں مختلف لوگوں سے ان معلومات کی تصدیق کی‘ وہ تمام معلومات درست نکلیں اور میرے دل میں ان کا احترام بڑھ گیا‘ جنرل پاشا نے اس وقت عمران خان کے دھرنے کا انکشاف کیا تھا اور یہ دعویٰ بھی کیا تھا ”یہ منصوبہ ناقص ہے اور یہ لوگ ناکام
ہو جائیں گے“ میں نے وجہ پوچھی تھی تو جنرل پاشا نے جواب دیا تھا ”جنرل راحیل شریف میرے ماتحت رہے ہیں‘ میں جانتا ہوں یہ عین وقت پر ذمہ داری سے بھاگ جائیں گے اور بدنامی کی کرچیاں جنرل ظہیر الاسلام کو سمیٹنا پڑ جائیں گی“ جنرل پاشا کی یہ پیشن گوئی بعد ازاں سو فیصد سچ ثابت ہوئی اور جنرل پاشا سے میری چوتھی ملاقات 31 مارچ 2017ءکو لاہور
ائیر پورٹ پر ہوئی‘ ہماری فلائیٹ لیٹ ہو گئی چنانچہ ہمیں تین گھنٹے گفتگو کا موقع مل گیا‘
لاﺅنج میں ایک صاحب دور بیٹھ کر موبائل فون پر ہماری ملاقات کی فلم بناتے رہے اور ہم دونوں ان کی اس بچگانہ حرکت پر قہقہے لگاتے رہے۔یہ چاروں ملاقاتیں معلومات کا خزانہ تھیں‘ میں ہر ملاقات کے بعد جنرل پاشا کا پہلے سے زیادہ فین ہوگیا‘ بالخصوص یہ دوسری اور تیسری ملاقات میں کھل کر سامنے آ گئے‘ یہ وسیع المطالعہ ہیں‘ ملک اور فوج دونوں کے بارے میں سیریس ہیں اور یہ سیاستدانوں کے کردار سے خوش نہیں ہیں تاہم یہ جمہوریت کو ملک کی بقا سمجھتے ہیں‘
یہ سمجھتے ہیں نظام جیسا بھی ہے اسے چلتا رہنا چاہیے یہ خود بخود ٹھیک ہو جائے گا‘ یہ اعتراف کرتے ہیں جنرل کیانی اور انہوں نے فیصلہ کیا تھا پیپلز پارٹی کو پانچ سال پورے کرنے کا موقع ملنا چاہیے اور یہ سیاست میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کریں گے‘ یہ اعتراف کرتے ہیں جنرل کیانی درمیان میں مایوس ہو گئے تھے لیکن یہ انہیں ان کا وعدہ یاد کرا کے واپس لے آئے‘ یہ میاں شہباز شریف کو پسند کرتے ہیں‘ یہ اعتراف کرتے ہیں یہ میاں نواز شریف سے کبھی نہیں ملے‘
میاں شہباز شریف نے ملاقات کرانے کی کوشش کی لیکن انہوں نے انکار کر دیا تھا‘ ان کا خیال تھا یہ ملاقات تعلقات کو مزید بگاڑ دے گی‘ وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں یہ جنرل کیانی سے اجازت لے کر زمان پارک لاہور اور بنی گالہ میں عمران خان سے ملے تھے‘ یہ شفقت محمود اور جہانگیر ترین کے ساتھ اپنے تعلقات سے بھی انکار نہیں کرتے اور یہ بھی تسلیم کرتے ہیں یہ صدر آصف علی زرداری کے کہنے پر ایم کیو ایم کو دوبار اقتدار میں لائے تھے‘ الطاف بھائی صرف ”ٹیلی فون“ پر مان گئے تھے‘
یہ ان تمام معاملات میں کلیئر ہیں‘ مجھے یہ جرا ¿ت مند اور ایماندار بھی لگے۔میں نے جنرل پاشا سے دوسری ملاقات میں ریمنڈ ڈیوس کے بارے میں دو درجن سوال کئے تھے‘ جنرل پاشا نے تمام سوالوں کے سیدھے سادے جواب دیئے تھے‘ یہ جواب بعد ازاں سچ ثابت ہوئے‘ میں نے تمام کرداروں سے بھی تصدیق کی اور اب ریمنڈ ڈیوس کی کتاب نے بھی ان معلومات کی تصدیق کر دی‘ مثلاً جنرل پاشا نے2014ءمیں تسلیم کیا تھا مجھے لاہور میں ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں دو جوانوں کے قتل کی اطلاع ملی تو میں نے سی آئی اے کی ڈائریکٹر لیون پنیٹا کو فون کر کے پوچھا ”یہ آپ کا آدمی تو نہیں“
ہمارے امریکا کے ساتھ ان دنوں بہت اچھے تعلقات تھے‘ میرا خیال تھا لیون پنیٹا اگر ریمنڈ ڈیوس کو اپنا بندہ تسلیم کر لے تو ہم اسے سفارت خانے کے حوالے کر دیں گے لیکن لیون پنیٹا نے مجھ سے جھوٹ بولا اور اسے بعد ازاں اس جھوٹ کا نقصان اٹھانا پڑا‘ جنرل پاشا نے تسلیم کیا ریمنڈ ڈیوس کو رہا کرنے کا فیصلہ صدر آصف علی زرداری نے کیا تھا‘ میں نے جنرل پاشا کو بتایا سینیٹر جان کیری پاکستان کے سفیر حسین حقانی کے ساتھ15 فروری 2011ءکو پاکستان آئے ‘ حسین حقانی نے صدر زرداری کو تیار کیا تھا اور جان کیری نے میاں نواز شریف کو‘ حکومت کو دیت کا فارمولہ بھی حسین حقانی نے دیا تھا‘
مقتولین کو دیت پر تیار کرنے کا فیصلہ بھی جان کیری کے دورے کے دوران ہو گیا تھا‘ جنرل پاشا نے جواب دیا ”یہ بات میرے نوٹس میں نہیں ہاں البتہ یہ درست ہے ریمنڈ ڈیوس کو دیت کے بدلے رہا کرنے کا فیصلہ صدر زرداری نے ایوان صدر میں اعلیٰ سطحی میٹنگ میں کیا تھا‘ میٹنگ میں صدر‘ وزیراعظم‘ وزیرداخلہ‘ آرمی چیف اور میں شامل تھا‘ صدر زرداری اور جنرل کیانی نے مجھے ”مدد“ کا حکم دیا تھا“ میں نے ان سے پوچھا ”میاں برادران کو کس نے تیار کیا تھا“ جنرل پاشا نے جواب دیا‘
میری میاں نواز شریف سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی تھی‘ یہ کام شاید جان کیری نے کیا تھا تاہم میں میاں شہباز شریف سے ضرور ملا تھا‘ یہ خود بھی ریمنڈ ڈیوس سے جان چھڑانا چاہتے تھے‘ پنجاب حکومت کی اطلاعات تھیں ریمنڈ ڈیوس قتل ہو جائے گا اور بدنامی ان کے گلے پڑ جائے گی‘ میں نے ان سے پوچھا میری اطلاع کے مطابق دیت کے پیسے صدر زرداری کے حکم پر ملک ریاض نے دیئے تھے‘ جنرل پاشا نے صاف انکار کر دیا‘ ان کا کہنا تھا یہ رقم وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنے صوابدیدی فنڈ سے دی تھی‘ لواحقین نے جتنی رقم وصول کی وزیراعظم نے اتنی ہی رقم ریلیز کی‘
میں نے پوچھا‘ ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں رحمن ملک کا کیا کردار تھا‘ جنرل پاشا نے جواب دیا ”یہ ڈیل وہ کرانا چاہتے تھے لیکن صدر نے انہیں جھڑک دیا“ میں نے ان سے پوچھا ”چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو کس نے راضی کیا تھا“ جنرل نے جواب دیا ”صدر نے یہ ذمہ داری بھی مجھے سونپی تھی“ میں نے ان سے پوچھا تھا ”کیا یہ درست ہے ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کا فیصلہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف ایڈمرل مائیک مولن نے عمان میں کیا تھا‘ ‘
جنر پاشا اس معاملے میں یقین سے کچھ نہ کہہ سکے‘ ان کا خیال تھا حکومت نے ریمنڈ ڈیوس کو چھوڑنے کا فیصلہ جنرل کیانی اور مائیک مولن کی ملاقات سے پہلے کر لیا تھا‘ میں نے ان سے پوچھا‘ کیا آپ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کےلئے خود لاہور گئے تھے‘ جنرل پاشا نے جواب دیا‘ جی نہیں‘ میں اسلام آباد میں تھا‘ امریکی سفیر کیمرون منٹر جہاز لے کر لاہور گئے تھے تاہم میں ایس ایم ایس کے ذریعے سفیر کے ساتھ رابطے میں تھا‘ میں نے ان سے پوچھا‘ آپ نے ریمنڈ ڈیوس کو رہا کیوں کیا تھا‘
آپ کو اسے سزا دینی چاہیے تھی‘ جنرل پاشا کا جواب تھا یہ فیصلہ سیاسی حکومت نے کیا تھا‘ ہم نے صدر کے احکامات پر عمل کیا تھا‘ اگر صدر آصف علی زرداری اور میاں شہباز شریف نہ چاہتے تو ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے تھے‘ ریمنڈ ڈیوس حکومت اور عدلیہ کے پاس تھا‘ وہ ہمارے پاس نہیں تھا‘ دوسرا لواحقین نے باقاعدہ دیت کی رقم لے کر ریمنڈ ڈیوس کو معاف کیا تھا‘ حکومت اگر چاہتی تو یہ لواحقین کو رقم ادا کئے بغیر ریمنڈ ڈیوس کو چھوڑ دیتی لیکن حکومت نے اپنی جیب سے لواحقین کو رقم ادا کی‘
وہ لوگ بھی اگر نہ مانتے تو ہم مجبور ہو جاتے‘ یہ درست ہے ہم نے انہیں دیت کےلئے رضا مند کیا تھا لیکن یہ زبردستی نہیں تھی‘ لواحقین خود رضا مند ہوئے تھے‘ آخری بات‘ ملکوں کے ملکوں سے تعلقات ایسے واقعات سے بلند ہوتے ہیں‘ پاکستان نے ریمنڈ ڈیوس کے ایشو پر امریکا کی ناک رگڑ دی تھی‘ ہم نے انہیں مجبور کر دیا تھا لیکن ہم اس سے آگے نہیں جا سکتے تھے‘ ہم آگے جاتے تو تعلقات مزید خراب ہو جاتے اور یہ پاکستان کےلئے مناسب نہیں تھا‘ میں نے ان سے پوچھا ”آپ یہ تمام حقائق دنیا کے سامنے کیوں نہیں رکھتے‘ آپ یہ معلومات عام کر دیں“
جنرل پاشا نے جواب دیا” ہم ریمنڈ ڈیوس جیسے کانٹریکٹرز کو اتنی اہمیت کیوں دیں‘ سی آئی اے کے پاس ایسے ہزاروں پرزے ہیں‘ ہم ایسے پرزوں کو اہمیت دے کر اپنے ملک کی توہین کریں گے‘ میں کم از کم یہ توہین نہیں کروں گا“۔ نوٹ: میں نے جنرل پاشا سے یہ تمام سوال مارچ 2014ءمیں کئے تھے‘ میں نے ان معلومات پر18 اپریل 2014ءکو ”ریمنڈ ڈیوس۔اصل حقائق“ کے عنوان سے کالم بھی تحریر کیاتھا۔
إرسال تعليق