تیری دنیا میں یا رب زیست کے سامان جلتے ہیں
فریب زندگی کی آگ میں انسان جلتے ہیں
دلوں میں عظمت توحید کے دیپک فسردہ ہیں
جبینوں پر ریا و کبر کے فرمان جلتے ہیں
ہوس کی باریابی ہے خرد مندوں کی محفل میں
رو پہلی چلمنوں کی اوٹ میں ایمان جلتے ہیں
حوادث رقص فرما ہیں قیامت مسکراتی ہے
سنا ہے نا خدا کے نام شے طوفان جلتے ہیں
شگوفے جهولتے ہیں اس چمن میں بهوک کے جهولے
بہاروں میں نشیمن تو بہر عنوان جلتے ہیں
کہیں پازیب کی چهن چهن میں مجبوری تڑپتی ہے
ریا دم توڑ دیتی ہے، سنہرے دان جلتے ہیں
مناو جشن مے نوشی، بکهیرو زلف مے خانہ
عبادت سے تو ساغر دہر کے شیطان جلتے ہیں..
إرسال تعليق