حضرت عزرائیل علیہ السلام کے دل میں رحم آنا
ایک دفعہ اللہ رب العزت نے حضرت عزرائیل علیہ السلام سے پوچھا کہ تجھے کسی کی جان قبض کرتے ہوئے کبھی رحم آیا۔
حضرت عزرائیل علیہ السلام نے عرض کیا الٰہی میرا ہر ایک کی روح قبض کرتے ہوئے دل دُکھتا ہے مگر آپ کے حکم کی سرتابی کی مجال نہیں۔ہاں ایک ایسا واقعہ گزرا ہے جس کا دُکھ میں ابھی تک بھلا نہ سکا وہ غم تنہائی میں بھی میرے ساتھ رہتا ہے۔
عرض کیا کہ ایک جہاز سمندر میں سفر کر رہا تھا۔ وہ آپ کے حکم سے بھنور میں پھنس گیا۔تھوری دیر بعد وہ جہاز تباہ ہوگیا۔جہاز میں سوار کئی مسافر غرق ہو گئے جو مسافر بچے ان میں ایک ماں اور اس کا نوازئیدہ بچہ جو تباہ شدہ جہاز کے ایک تختے پر سمندر کی لہروں میں آپ کے رحم و کرم پر بہے چلے جا رہے تھے۔تیز ہوا نے انہیں سینکڑوں میل دور سمندر کے کنارے پہنچا دیا۔میں ماں اور بیٹے کے بچ جانے پر بہت خوش ہوا اسی لمحے آپ کا حکم ہوا ماں کی روح قبض کرلو ۔ مولا کریم میں نے آپ کے حکم کی تعمیل کی یا باری تعالیٰ آپ خوب جانتے ہیں کہ یہ حکم پاکر میرا کلیجہ کانپ گیااور جب مین نے اس طفلِ شیر خوار کو ماں سے الگ کیا تو مجھے کس قدر تکلیف پہنچی تھی۔ پھر حکمِ الٰہی ہوا کیا تجھے معلوم ہے کہ بعد میں وہ بچہ کہاں اور کس طرح پر ورش پاتا رہا؟
عزرائیل علیہ السلام نے عرض کیا کہ آپ عالم الغیب ہیں ظاہر اور باطن آپ پر عیاں ہیں ۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ہم نے موجِ سمندر کو حکم دیا کہ اس لاوارث بچے کو اُٹھاکر ساحل پر ڈال دے۔ ساحل کے قریب ایک سرسبز و شاداب جزیرہ تھا۔ ہم نے پھولوں کو حکم دیا کہ بچے کے نیچے سیج بچھادیں۔ سورج سے کہا اپنی تیز شعاوں سے بچے کو محفوظ رکھنا۔ بادل کو کہا بچے سے ذرا فاصلے پر برسے، درختوں کی شاخیں خود بخود جھک کر پھل اور ان کا رس اس کے منہ میں دال دیتی تھیں۔ جزیرے میں ایک شیرنی کی ہم نے ذمہ داری لگادی وہ روزانہ اسے دودھ پلاتی شیرنی کے خوف سے بچے کے پاس کوئی جانور نہیں آسکتا تھا۔ اس جزیرے میں ہم نے خوش نوا اور ھسین پرندے بھیجے جو ہر وقت چہچہاتے تاکہ بچے کا دل پریشان نہ ہو۔ ہوا کو حکم دیا کہ اس بچے پر آہستہ آہستہ سے گزرے تاکہ اس کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔
اے عزرائیل علیہ السلام ! وہ تنہا اور بظاہر بے یارومددگار بچہ پرورش پاکر خو ب صحت مند اور بہادر ہوگیا۔ ہم نے اس کے پاؤں میں کبھی کانٹا بھی نہ چبھنے دیا۔ دنیا کی دنیا کی تمام نعمتیں اسے عطا کیں۔ ایک بادشاہ شکار کھیلتے ہوئے اُدھر آنکلا وہ خوبصورت اور صحت مند بچے دیکھ کر بہت خوش ہوا اسے اٹھا کر اپنے محل لے گیا ان کے ہاں اولاد نہ تھی انہوں نے اسے اپنا بیتا بنا لیا۔ بادشاہ کی موت کے بعد وہ اکیلا تخت و تاج کا مالک بن گیا۔ غرور و تکبر سے ہمارے بندوں پر ظلم کرنے لگا، ایسا سرکش نکلا کہ خود ہی خدا بن بیٹھا، اپنے بُت بنوا کر انہیں سجدے کرانے لگا۔ خاک کا فانی پتلا ہمارا شریک بن بیٹھا آخر ہم نے اس کی بہتری کے لیے اپنے خلیل ابراھیم علیہ السلام کو اس کے پاس بھیجا اس ظالم نے ہمارے پیارے کو بھی آگ میں پھینک دیا۔ اے عزرائیل علیہ السلام ! اس بطے نے میرا کیا شکریہ ادا کیا؟ وہ بچہ نمرود بن کر اس وقت ایک بڑے ملک کا بادشاہ ہے اور اسی نے میرے خلیل ابراھیم علیہ السلام کو آگ کے الاؤ میں جھونکا ہے اور اب خدائی کا دعوہ کرکے لوگوں کو میری راہ سے ہٹاتا ہے اور حکم نہ ماننے والوں کو سخت سزا دیتا ہے۔
عزرائیل علیہ السلام نے عرض کیا اے مخلوقات کے کالق میں اس سرکش بچے کی حالت سے بے خبر ہونے کی وجہ سے دل میں خیال اور ملال لاتا رہا۔آپ کے راز آپ ہی جانیں۔
سبق:
اے خدا کے بندے تواپنی اصلاح کرلے ،نفس کو قیدو بند میں رکھ ۔ نفس یقیناََ ایک خونی درندے کی مانند ہے اگر یہ احسان فراموش ہو جائے تو مثلِ نمرود بن جاتا ہے۔
(حکایات رومی، حکایت نمبر34ص:143)
إرسال تعليق