Maulana Rumi and Peer Shams Tabriz - by Dr Inaam Ul Haq

مولانا رومی اور  شمس تبریز:  ڈاکٹر انعام الحق کوثر
     

642ھ بمطابق 1244ءسے پیشتر کہ مولانا رومی کی مسند نشینی فقر کی تاریخ اسی سال شروع ہوتی ہے ، ان کی شہرت ، علوم معقول و منقول میں مہارت کے باعث نزدیک و دور تک پھیل چکی تھی ۔ وہ علوم دینیہ کا درس دیتے تھے ۔ وعظ کرتے تھے ، فتوے لکھتے تھے اور سماع سے سخت دوری کا مظاہرہ کرتے تھے۔ وہ زندگی کی چھتیس بہاریں گذار چکے تو ان کی زندگی کا دوسرا دور ایک مرد پراسرار شمس الدین بن علی بن ملک دادتبریزی کی ملاقات سے آغاز پایا جن کی ذات میں حد درجہ جاذبیت تھی۔ یوں تو اس سلسلے میں روایتی انداز نے دل کھول کرتا نا بانابنا ہے پھر بھی یہ حقیقت اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ مولانا رومی کی شمس تبریز سے ملاقات نے کایا ہی پلٹ کر رکھ دی ۔ تمام نقاد اور مورخ یک کلمہ ہو کر تحریر کرتے ہیں کہ شمس تبریز علوم ظاہری میں ماہر ، خوش کلام، شیرین زباں اور ازیںبالاتر آنکہ جذب و سلوک کی منزلیں طے کر چکے تھے۔ وہ درویشوں کی تلاش میں شہر بہ شہر گھومتے پھرتے تھے ۔ یہی تلاش انہیں قونیہ میں بھی لے آئی ۔ مولانا نے شمس کے ہاتھ پر بیعت کی اور انہیں گھر لے گئے ۔ مختلف بیانات سے یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ حضرت شمس دو برس کے لگ بھگ آپ کے ساتھ رہے ۔ ایک بار وہ چلے گئے تھے پھر انہیں لایا گیا ۔ دوسری دفعہ جا کر واپس نہ لوٹے ۔ ایک روایت کے مطابق قتل کر دیے گئے ۔ مولانا رومی کی شمس تبریز سے ملاقات نے ان کی زندگی ،جس میں قبل ازیں شروع سے ماورا کوئی چیز داخل نہ ہوئی تھی، ایک ایسا پرشور انقلاب پیدا کیا کہ وہ علوم معقول و منقول سے صرف نظر کرکے تصو ف سلوک اور عشق و معرفت کے عقائد اور مسائل کی جانب متوجہ ہو گئے ۔ ان کی یہ حالت ہو گئی :”زور را بگذاشت او زاری گرفت “ اور ”دل خود کام را از عشق خوں کرد“

     نتیجةً انہوں نے” نغمہ نے“ کو ایسے انوکھے اور پرکشش انداز میں سنا کہ پھر اسی کے ہوگئے ۔ ان کی رہنمائی شمس تبریز نے ایسے سرگرم انداز میں فرمائی کہ رومی نے ان کی توصیف میں نہایت دلفریب اور اچھی غزلیں لکھیں جن سے جذبے کی گہرائی اور گیرائی کا نشان ملتا ہے ۔ ان کی غزل دل کی زبان بنی ۔ آپ بیتی اور دل پر لگے ہوئے عشق کے داغ بیان ہوئے۔
     مولانا کا دیوان جسے اکثرغلطی سے ”دیوان شمس تبریز“ سمجھا جاتا ہے اس بزرگ سے مولانا کی عقیدت و ارادت کی لازوال یادگار ہے ۔ دیوان میں شمس کا نام بار بار ایسے آتا ہے کہ صاف پتہ چلتا ہے کہ شاعر کے علاوہ کوئی اور شخص مراد ہے ۔ جیسے
زبی صبری بگویم شمس تبریز
چنینی و چنانی من چہ دانم
عاشقا از شمس تبریزی چو ابر
سوختی لیکن ضیا آموختی
شمس الحق تبریزی شاہ ہمہ شیرا نست
در بیشہ جان ما شیر وطن دارد
شمس تبریزی نشستہ شاھوار و پیشِ او
شعر من صفہازد ہ چون بندگان ِاختیار
بی اثرھای شمس تبریزی
از جہان جز ملال ننماید
شمس تبریزی برای عشقِ تو
برگشادم صد در از دیوانگی
شمس تبریز کہ سرمایہ لعلست و عقیق
ما ازو لعل بدخشان و عقیق یمنیم
در فراق شمس تبریزی از آن کاھیدتن
تا فزاید جانہا راجانفزایی سیر سیر
خداوند شمس دین آن نور تبریز
کہ ہر کس را چو من چاکر نگیرد
شمس تبریر پی نور تو زان ذرہ شدیم
تاز ذرات جہان در عدد افزون باشیم
شمس تبریز شہنشاہ ہمہ مردانست
ما ازآن قطب جہان حجت و برہان داریم
شمس تبریز کم سخن بود
شاھان ہمہ صابر و امینند
مولانا رومی مثنوی معنوی میں بھی حضرت شمس کا نام بہت عزت و احترام سے لیتے ہیں ۔ مثلاً :
شمس تبریزی کہ نور مطلقست
آفتابست و ز انوار حق است
شرح این ہجران و این خون جگر
این زمان بگذار تا وقتِ دگر
     مولانا رومی شمس تبریزی کو مختلف القابات سے پکارتے ہیں جیسے نور اولیا ، نور دلہا، شاہ عشق، روی قمر، خسرو جان ، شاہ خوش آیین ،حق آگہ، سخن بخش زبان من ، شاہ شیراں ، نور تبریز، خسرو عہد ، شہ تبریز، سلطان سلطانان جان، شاہ جہانہا، وغیرہ۔
     کلیات شمس تبریزی (چاپ دوم ، 1341ش، تہران) میں 417 صفحہ پر ایک غزل (سولہ شعروں پر مشتمل) ملتی ہے جس میں حضرت شمس کو مختلف لقبوں(مثلاً دُریتیم، نقدِ عیّار، عین انسان، فخر کبار، جام جم، بحر عظیم، سرو رواں وغیرہ) سے یاد کیا ہے ۔ اس غزل کا مقطع ہے:
ای دلیل بی دلان وای رسول عاشقان
شمس تبریزی بیاز نہار دست از ما مدار
     دیوان شمسعالم شور و جذبہ کا حاصل ہے جو بیکراں سرمستی اور پایکوبی کے ساتھ شمس الدین شمس الحق تبریزی کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ اس مجموعہ کو شعر و زیبائی کا اعجاز قراردیا جا سکتا ہے ۔ ان غزلوں میں مے عشق و زیبائی کو ایسی بدیع رنگ آمیزی، ایسی شور انگیز اور سحر انگیز عبارات اور اصطلاحات میں سمویا گیا ہے کہ گاہے واحد غزل ہی رند کو رندانہ ہا و ہو اور زاہد کو زاہدانہ انداز فکر پر اکساتی ہے ۔ رومی نے کلیةً ان غزلیات کو شعور انگیز عشق اور عجیب روحانی کیفیات کے زیر اثر صفحہ قرطاس پر منتقل کیا ہے جو تاریخ ادبیات جہان میں بے نظیر ہیں ۔ سوز دل کے متعلق فرماتے ہیں:
عشق مہمان شد بر این سوختہ
یک دلی دارم پیش قربان کنم
بادہ محبت سے مخمور ہیں :
مخمور توام ، بدست من دہ
آن جام شراب کوثری را
وارفتگی عشق:
شب وصال کی لاجواب تصویر:
باز در آمد ببزم مجلسیان دوست دوست
گرچہ غلط می دھدنیست غلط اوست اوست
عمر گل چیدن است امشب می خوردن است امشب
اضطراب عشق اور انتظار کے جذبات کی کامیاب ترجمانی:
کرانی ندارد بیابان ما
قراری ندارد دل و جان ما
دل عاشق ہر وقت حضور یار کا متمنی:
یک لحظہ ز کوی یار دوری
در مذہب عاشقان حرامست
باد عشق سے درخواست کہ اس جانب سے بھی گذر:
ای باد خوش کہ از چمن عشق می رسی
برمن گذر کہ بوی گلستانم آرزوست
     بعض اہل علم حضرات کی رائے ہے کہ دیوان شمس تبریز ی کا جتنا بھی مطالعہ کیا جائے اتنا ہی وہ زیادہ تازگی بخشتا ہے اور لگا تار فیض پہنچانے والا بنتا ہے ۔ انسان کی ملال پذیر طبیعت سے کوفت کو دور کرتا ہے اور انسان اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ اس قدر انسانی فطرت کی تعبیر شاید ہی کسی اور شاعر میں ہو جس قدر مولانا رومی کے کلام میں پوشیدہ ہے ۔ جوش عزم ملاحظہ ہو:
مابه فلک میرویم عزم تماشا کراست
ایک اور شعر دیکھیے:
بشاخ زندگی ما نمی زتشنہ لبی است
تلاش چشمہ حیوان دلیل کم طلبی است
علامہ اقبال کے ہاں بھی تخیل میں یہی زور اور بیان میں یہی جوش ہے۔ خود کہتے ہیں:
                                                                مطرب، غزلی، بیتی از مرشد روم آور
                                                                تاغوطہ زند جانم در آتش تبریزی
     مولانا رومی کے کلام سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کوئی عاشق اپنے معشوق کی تعریف کر رہا ہے لیکن اس میں جنسی کشش معدوم ہے۔ یہ جو دعوی کیا جاتا ہے کہ ساری محبت جنسی کشش پر مبنی ہے یہاں اس کے برعکس جنس اور بدن قطعی طو ر پر ختم ہو جاتا ہے ۔ عشق اصلاً اور طبعاً ذہنی اور روحانی اتصال کانام بن جاتا ہے ۔ اس مقام کا ترفع اس حد تک ہے کہ جنس بالکل خارج از بحث ہو جائے اور کشش محض روحانی رہ جائے ۔ اس مقام پر مولانا کی کئی غزلیں ہیں۔ کہتے ہیں:
دوئی را چون برون کردم دو عالم را یکی دیدم
یکی بینم ، یکی جویم ، یکی دانم،یکی خوانم
الا ای شمس تبریزی چنان مستم درین عالم
کہ جز مستی و سرمستی دگر چیزی نمیدانم
٭٭٭
رسید مژدہ بشامست شمس تبریزی
چہ صبحہا کہ نماید اگر بشام بود
٭٭٭
جز شمس تبریزی مگو جز نصر و پیروزی مگو
جز عشق و دلسوزی مگو جز این مدان اقرار من
     جس طرح نظام شمسی جذب باہمی پر قائم و دائم ہے اسی طرح انسان بھی جذب معانی سے زندہ ہیں۔ اس جذب باہمی کی اعلیٰ ترین صورت وہ رابطہ ہے جو بندے اور خدا کے درمیان ہے ۔ خدا کی طرف سے یہ جذب ربوبیت کی شکل میں اور بندے کی جانب سے محبت کے روپ میں رونما ہوتا ہے ۔ گویا خدا کے ساتھ بندے کا رابطہ محبت کا ہے اورخدا کا بندے سے عبودیت کا ہے اور یہی اصلی تصوف ہے۔ اللہ ہر کسی کو رزق دیتا ہے اس کا بندہ ، سمجھ میں آئے یا نہ آئے اس کے احکام کی پابندی کرتا ہے ۔ پھر جب مولانا رومی کی طرح شمس تبریز کے توسط سے شخصیت کی تکمیل ہوتی ہے تو یہ صورت بن جاتی ہے :
بخدا خبر ندارم چون نماز می گزارم
کہ تمام شد رکوعی کہ امام شد فلانی
     مولانا رومی کی شمس تبریز سے ذہنی اور روحانی ہم آہنگی کا نتیجہ ہے کہ شریعت اور طریقت کی خلیج کو پاٹ دیا گیا ۔ شریعت اور طریقت کے ملاپ سے جو تصوف پیدا ہوا وہ ارفع ہے ۔ اس کا ذکر مولانا کے اشعار میں ملتا ہے۔ فرماتے ہیں :
یک دست جامِ بادہ و یک دست جعدِ یار
رقصی چنین میانہ میدانم آروزست
گفتم کہ یافت می نشود جستہ ایم ما
گفت آنکہ یافت می نشود آنم آرزو ست
٭٭٭
باش اول برشریعت استوار
بعدازاں سوی طریقت رو بیار
     جذبہ اورعقل میں جو تضاد ہے ان میں آخر کار جذبہ کو فوقیت حاصل ہوتی ہے ۔ حواس باطنی سے جو جذبہ طے ہو وہ کبھی بھی اپنی اثر آفرینی کھو نہیں سکتا ۔ ایک بار جب وجود باطنی مکشوف ہو جاتا ہے اور آدمی کشف کی نعمت سے بہرہ یاب ہو جاتا ہے تو وہ جذبہ وہ تجربہ جو کشف کے ذریعہ پیدا ہوا ہے کبھی محو نہیں ہو سکتا ۔ حقیقت مکشوف ابدی ہے اور حقیقت عقلی عارضی ۔مولانا رومی فرماتے ہیں :
بگذر از باغ جہان یک سحر ای رشک بہار
تاز گلزار و چمن رسم خزان برخیزد
٭٭٭
بار دیگر از دل و عقل و جان برخاستیم
یار آمد درمیان ما از میان برخاستیم
     مولانا رومی شمس تبریز کی صحبت کے باعث ہی سامع کے شیدا و والہ بنے اور ان کے بقول :
سماع از بہر و صلِ دلستانست
اور یہ کہ
سماع از بہر جان بی قرارست
     موسیقی کے اثرات ان کے کلام میں بھی ظاہر ہو ئے ہیں ۔ اس بنیادی خصوصیت کے بارے میں پروفیسر نکلسن نے بھی اشارہ کیا ہے ۔ علی دشتی نے اس کی یوں توضیح کی ہے ”جلال الدین با کلمات محدود و نارسای زبان ، نسبت بفکر و جوش درونی ہمان کاری را انجام میدھد کہ موسیقی با ترکیب اصوات و آزاد از محدودیت ۔“ دیوان شمس کی اکثر غزلیں اُن لگاتار موجوں کی صداوں کی مانند ہیں جو ہوا کے باعث ساحل سے ٹکراتی رہتی ہیں آواز آتی ہے :
ای یار من ای یار من ای یار بی زنہار من
ای ھجر تو دلسوز من ای لطف تو غمخوار من
خود میروی در جان من، چون میکنی درمان من
ای دین من، ای جان من، ای بحر گوھر بار من
ای جان من ای جان من سلطان من سلطان من
دریای بی پایان من بالاتر از پندار من
     وہ حقیقت کو اس انداز میں پیش کرنے کے عادی ہیں کہ قارئین اس کا احساس کرنے کے باوجود اسے بیان نہیں کر سکتے ۔ ان کا کلام ہمیشہ طرب آور، ہموم انگیز اور تخیل پرور ہوتا ہے لیکن وہ احساس قارئین کی فکر کو ایسی جلا بخشتا ہے کہ وہ اسی کے ہو کر رہ جاتے ہیں ۔ بسا اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ رومی شعر کہنا اور اپنے خاموش احساسات کو پیش کرنا نہیں چاہتے ۔وہ صرف اپنے دیکھے ہوئے خواب کو بیان کرنے کے خواہاں نظر آتے ہیں۔ چنانچہ وہ ہاتھ پاوں مارتے ہیں ۔ ان کا یہ عمل موزوںاور خوش آہنگ کلمات کی صورت میں ظاہر ہوتاہے اور ان کاشعر قارئین کو صبح کے پھولوں کی طراوت اور بادہ کہنہ کا نشہ بخشتا ہے ۔ وہ خود کہتے ہیں :
ھمہ جوشم ھمہ موجم سر دریای تودارم
     وہ شعر کو ہنر مندی کاذریعہ نہیں بناتے۔ وہ تو ان کے لیے آئینہ روح ہے ۔ وہ زندگی سے ناامید نہیں ہوتے ۔ امید ہمیشہ ان کے عشق میں موجزن رہتی ہے ۔ان کا دیوان سبزہ زار عشق اور لالہ محبت ہے۔ وہ نور مطلق کے نزدیک ہو جاتے ہیں اور اپنے آپ کو سراسر عشق ، سراسر عقل اور سراسر جان خیال کرتے ہیں :
نہ ابرم من نہ برقم من نہ ماھم من نہ چرخم من
ھمہ عشقم ھمہ عقلم ھمہ جانم بہ جانانہ
شعر گوئی سے ان کا مقصد یہی ہے کہ حقائق شعر کا لبادہ اوڑھ لیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
خواہم کہ کفکِ خونین از دیگ جان بر آرم
گفتار دو جہان را از یک دھان بر آرم
     یہ صفت عروج و کمال کے ساتھ مثنوی میں ملتی ہے لیکن دیوان میں بھی یہی نمایاں ہے مثلاً سرّاَنا کے متعلق کہتے ہیں:
از کنار خویش یابم ہر دمی من بوی یار
عشق اور بندگی کے بارے میں:
دیگران آزاد سازند بندہ را
عشق بندہ میکند آزاد را
     دیوان شمس تبریزی تکلف اور تصنع سے اس حد تک دور ہے کہ شعر میں صنایع ظریف و مطلوب کی جانب توجہ ضروری نہیں سمجھی جاتی کیونکہ اشعار کہنے والا کسی اور چیز میں محو ہے ۔ وہ فقط اپنے خیال اور احساس کو پیش کرتا ہے ۔ گاہے بغیر کسی اختیار اور ارادے کے یہ عمل مکمل ہوتا ہے :
مارا سفری فتاد بی ما
آنجا دل ما گشاد بی ما
مائیم ہمیشہ مست بی می
مائیم ہمیشہ شاد بی ما
     مولانا کے اشعار کا مطلب سمجھنے میں دقت اس لیے نہیں ہوتی کہ وہ مانوس اور عام فہم الفاظ بروئے کار لاتے ہیں ۔ اس پر مستزادیہ کہ خیالات میں صفائی اور سادگی ہونے کے سبب تصورات میں الجھاو نہیں۔ فرماتے ہیں :


بر چرخ ، سحر گاہ یکی ماہ عیان شد
از چرخ فرود آمد و در ما نگران شد
درجان چو سفر کردم جز ماہ ندیدم
تا سرّ تجلی ازل، جملہ بیان شد
٭٭٭
عشقست بر آسمان پریدن
صد پردہ بہر نفس دریدن
ہر کہ بہر تو انتظار کند
بخت و اقبال را شکار کند
٭٭٭
     رومی کے کلام میں سعدی کی فصاحت ، عنصری کی پختہ کاری ، انوری اور فرخی کے پرشکوہ الفاظ موجود نہیں ۔ ان کے یہاں مسعود سعد سلمان کی مستحکم زبان اور خاقانی جیسی استادانہ ترکیبات نہیں ملتیں ۔ ان کے کلام میں ایک ایسی چیز ہے کہ ان سب کے راستے کو روکتی ہے اور ان سے برتر ہے ۔ انہوں نے جو کچھ محسوس کیا ہے اسے مجاز کی راہ اپنائے بغیر بیان کیا ہے ۔ وہ بغیر کسی فلسفیانہ رنگ کے اپنی روح کی شورید گی اور دیوانگی کو صفحہ قرطاس پر رقم کرتے ہیں۔ اس کیفیت میں وہ تند و تیز ہوا کے جھونکے کی مانند ہیں کہ جو کچھ اس کے راستے میں آئے اسے لپیٹ کر لے جائے۔
     مولانا کے شعر کا انداز جدا ہے ۔ انہوں نے راہ نوتراشی ہے ۔ جس کی شاخیں ویرانوں ، کاشانوں ، میخانوں اور بتخانوں کی جانب جاتی ہیں۔ لیکن پھر مڑ آتی ہیں اور سیدھی عاشقوں کی عبادتگاہ کا رخ کرتی ہیں اور یوں حق و حقیقت کی راہ سے ملاپ پاتی ہیں ۔ مولانا کی پرواز زمین سے آسمان کی طرف ہوتی ہے ۔ پھر جب لوٹتے ہیں تو روحانی غذا مہیا کر تے ہیں جو جسم و روح میںداخل ہوتی ہے ۔ جسم وروح فیض پاتے ہیں ، ذی حیات اور ذی عقل بہرہ ور ہوتے ہیں ۔مسرت و شادمانی اور خرمی و انبساط کا سیلاب امڈ آتا ہے اور صائب تبریزی کے الفاظ میں یہ کیفیت ہوجاتی ہے :
از گفتہ مولانا مدھوش شدم صائب
این ساغر روحانی صہبای دگر دارد
اور علامہ اقبال کی آواز آتی ہے:
پیر رومی خاک را اکسیر کرد
از غبارم جلوہ ہا تعمیر کرد
     مولانا رومی کے یہاں آتش عشق موجود تھی۔ آتش کو بھڑکانے کا بھی بندوبست تھا ۔ صرف باد نسیم کے ایک جھونکے کی منتظر تھی ۔ یہ کام حضرت شمس تبریزی نے سرانجام دیا ۔ ان کے تاثرات و انفعالات میں ہیجان پیدا ہو گیا ۔ وہ اسی انقلاب دروں کی تصویر کشی کرتے چلے گئے ۔ حضرت شمس کے بعد صلاح الدین زرکوب اور حسام الدین چلپی نے اُن کی جگہ لے لی۔ یوں دیوان اور مثنوی منظر عام پر آئے۔ ہزاروں اشعار کہنے کے باوجود ان کی آتش عشق بجھنے نہ پائی اور وہ ہر دور کے سب سے بڑے صوفی شاعر متصور ہوئے ۔ خود فرما گئے:

گفتا کہ چندرانی گفتم کہ تابخوانی
گفتا کہ چند جوشی گفتم کہ تاقیامت
٭٭٭
ھم خونم و ھم شیرم ھم طفلم و ھم پیرم
ھم چاکر و ھم میرم ھم اینم و ھم آنم
ھم شمس شکرریزم ھم خطہ تبریزم
ھم ساقی و ھم مستم ھم شہرہ و پنہانم
شمس الحق تبریزم جز با تو نیامیزم
می افتم و می خیزم من خانہ نمی دانم
٭٭٭
فسانہ عاشقان خواندم شب و روز
کنون در عشق تو افسانہ گشتم
     حضرات !یہ ان کا فسانہ ہی تو ہے جو ہمیں نزد و دور سے یہاں لے آیا ہے اور ہم دنیا بھر میں سر دھنتے تھکتے نہیں۔

منابع

ادب نامہ ایران، مقبول بیگ بدخشانی، لاہور، 1958
تاریخ ادبیات ایران، رضازادہ شفق، تہران، 1313ش
سوانح مولانا روم ، شبلی نعمانی، لاہور، 1950
تذکرة الشعرا، دولت شاہ سمرقندی (ترتیب دہندہ اقبال صافی) ،لاہور، 1924
کلیات دیوان شمس تبریزی، با دو مقدمہ از علی دشتی واستاد بدیع الزمان فروزانفر، تہران 1341ش
گنجینہ ادب، عابد علی عابد، لاہور۔
گنج ادب، مقبول بیگ بدخشانی ، ظہور الدین احمد ، ڈاکٹر محمد باقر،لاہور، 1962
مفتاح العلوم (پہلی جلد) محمد نذیر عرشی ،لاہور، 1962
قندیل ، لاہور، 21 دسمبر 1952ء؛ مجلہ عثمانیہ ،حیدر آباد دکن ، جلد ہفتم ، شمارہ دوم ،ہلال کراچی ، دسمبر 1975، دسمبر 1958، مارچ 1962ءجون 1963۔ پروفیسر سید عابد علی عابد کے لیکچر ، 17 نومبر ، 21 نومبر 1953، ۲، ۶، ۹ مارچ 1954، دیال سنگھ کالج، لاہور۔



Post a Comment

أحدث أقدم