فیض آباد دھرنا ختم کرنے کے سلسلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا کہنا تھا کہ آرمی چیف ملک کے چیف ایگزیکٹو کا حکم ماننے کے بجائے ثالث بن گئے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی مذہبی جماعتوں کے دھرنے کے خلاف درخواست پر سماعت کر رہے تھے۔
جسٹس شوکت صدیقی نے آئی بی کو ہدایت جاری کرتے ہوئے دھرنے سے متعلق سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی آڈیو کے بارے میں پتہ لگا کر عدالت کو آگاہ کرنے اور فیض آباد آپریشن کی ناکامی کی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ فوج کون ہوتی ہے ثالثی کا کردار ادا کرنے والی، کیا فوج اقوامِ متحدہ ہے جو ثالثی کروا رہی ہے۔
انہوں نے استفسار کیا کہ پاکستانی قانون میں ایک میجر جنرل کو ثالث بنانے کا اختیار کہاں دیا گیا ہے، جس بندے کا کورٹ مارشل ہونا چاہیے تھا اسے ثالث بنا دیا گیا۔
جسٹس شوکت صدیقی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کہاں گیا ان کا ’رد الفساد‘ یہاں ان کو فساد نظر نہیں آیا؟ یہ تو اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کے پیچھے یہی تھے۔
سیکشن 4 کے تحت انتظامیہ کو ہنگامی صورتحال میں فوج بلانے کا اختیار حاصل ہے جبکہ سیکشن 5 کے تحت فوج انتظامیہ کا حکم ماننے کی پابند ہے۔
انہوں براہِ راست فوج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ فوج اپنی آئینی حدود میں رہے کیونکہ اب عدلیہ میں جسٹس منیر کے پیروکار نہیں ہیں اور جن فوجیوں کو سیاست کا شوق ہے وہ حکومت کی دی ہوئی بندوق واپس کرکے ریٹائرڈ ہوجائیں اور سیاست کا شوق پورا کرلیں۔
وفاقی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ حکومت انوشہ رحمٰن کو بچانے کے لیے زاہد حامد کی قربانی دے رہی ہے۔
جسٹس صدیقی نے کہا کہ انوشہ رحمان ڈرٹی گیم کھیل رہی ہے ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق کیس میں انوشہ رحمٰن کے کردار پر نکتہ اٹھایا تھا۔
عدالت کے جج کے اس سوال پر کہ احسن اقبال آپ بتائیں قانون میں کہاں یہ اختیار دیا گیا؟ جس پر وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ اندرونی سیکیورٹی کے حالات بن رہے تھے، روزانہ کسی کرنل، میجر، ایڈیشنل آئی جی پر حملے ہو رہے ہیں اور ایک ایٹمی قوت کی حامل ریاست کو ناکام دکھانے کے لیے ملک میں اندرونی حالات خراب کرنے کی سازش ہو رہی ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ موٹرویز، ریلویز اور شہروں کو بند کیا جا رہا تھا اس لیے مظاہرین کے ساتھ جو معاہدہ ہوا وہ ملک کو ان حالات سے نکالنے کے لیے کیا گیا۔
وفاقی وزیر داخلہ نے بتایا کہ اس خاتون کا بیٹا ہوں جس نے ختم نبوت کے قانون کی قرارداد پیش کی تھی، جس پر جسٹس شوکت صدیقی نے کہا کہ آپ عظیم ماں کے بیٹے اور عظیم تر نانا کے نواسے ہیں۔
جسٹس شوکت صدیقی نے آئی بی کو مظاہرین کے پاس ٹیئر گنز، آنسو گیس شیل اور ماسک کی موجودگی کی تحقیقات کرکے اس کی رپورٹ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دے دیا۔
مزید اصل سورس پر پڑھیں: Dawn Urdu
إرسال تعليق