ہر ظلم ترا یاد ہے، بھولا تو نہیں ہوں
اے وعدہ فراموش میں تجھ سا تو نہیں ہوں
ساحل پہ کھڑے ہو تمہیں کیا غم، چلے جانا
میں ڈوب رہا ہوں، ابھی ڈوبا تو نہیں ہوں
چپ چاپ سہی مصلحتاَ وقت کےہاتھوں
مجبور سہی وقت سے ہارا تو نہیں ہوں
مضطرؔ کیوں مجھے دیکھتا رہتا ہے زمانہ
دیوانہ سہی، اُن کا تماشا تو نہیں ہوں
(آفتاب مضطر)
إرسال تعليق