دنگ رکھتے تھے ہمیں پتلی تماشوں والے
اب تو بچّوں کے مشاغل نہیں بچّوں والے
ڈگڈگی کر دیا کرتی تھی دلوں پر جادو
کتنے ساحر ہوا کرتے تھے ببونوں والے
نیم کی چھاؤں بھرا صحن،گلابی موُڑھے
سبز مضبوط ستُوں کاسنی بیلوں والے
ایک نکڑّ پہ گھنا پیڑ جٹاؤں والا
چھاؤں میں بیٹھے ہوۓ کیسری چوغوں والے
پھولی پھولی سی فراکیں مری پھولوں والی
چھوٹے چھوٹے سے دوپٹّےمِرے گوٹوں والے
اجنبی اُن دنوں دہشت کی علامت نہیں تھے
ساری بستی میں پھرا کرتے تھے اونٹوں والے
ایسے نخرے کہاں کرتے تھے ہمارے گڈّے
اُس طرح تو نہیں مجبور تھے گڑیوں والے
حمیدہ شاہین
إرسال تعليق