زارداری کا رازدان اور خاص آدمی #انورمجید 35 ارب منی لانڈرنگ کیس میں بیٹے سمیت عدالت میں گرفتار ہوگئے

سندھ میں پینتیس ارب ڈالر کے میگا منی لانڈرنگ کیس میں اومنی گروپ کے سربراہ اور آصف زرداری کے قریبی دوست انور مجید اوران کے بیٹے عبد الغنی کو کمرہ عدالت سے گرفتار کرلیا۔


واضح رہے کہ ایف آئی اے حکام کے مطابق منی لانڈنگ کیس 2015 میں پہلی دفعہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے اٹھایا گیا، اسٹیٹ بینک کی جانب سے ایف آئی اے کو مشکوک ترسیلات کی رپورٹ یعنی ایس ٹی آرز بھیجی گئیں۔

سپریم کورٹ پاکستان میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ میں جعلی بینک اکاؤنٹس سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ آج ہونے والی سماعت میں سابق صدر آصف علی زرداری کے قریبی دوست اور اومنی گروپ کے مالک انور مجید اپنے چار بیٹوں کے ہمراہ پیش ہوئے۔ سماعت کے آغاز پر ڈی جی ایف آئی اے کی جانب سے استدعا کی گئی کہ انور مجید اور عبدالغنی کو گرفتار کرنا چاہتے ہیں، جس پر وکیل شاہد حامد نے کہا کہ عدالت ضمانت قبل از گرفتاری کے لئے رجوع کرنے کے لئے موقع دے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ گرفتاری سے روکنے کا کوئی حکم نہیں دے سکتے۔


چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ایف آئی اے انور مجید کو گرفتار کرنا چاہتی ہے تو کر لے، یہ اُسی کی صوابدید ہےکہ وہ کیا کرتی ہے۔ اس دوران انور مجید اور ان کے ایک بیٹے عبدالمجید کو کمرہ عدالت کے باہر سے گرفتار کرلیا گیا۔ وکیل شاہد حامد نے اس موقع پر عدالت کو بتایا کہ انور مجید اور دیگر کے نام ای سی ایل میں ہیں، یہ باہر نہیں جاسکتے جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ان کے نام کس نے ای سی ایل میں رکھنے کے لیے کہا۔

ڈی جی ایف آئی اے نے اس موقع پر کہا کہ عدالتی حکم میں موجود ہے کہ ان کا نام ای سی ایل میں ڈالا جائے۔ انور مجید کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ وقت دیا جائے ہم اس معاملے پر بحث کریں گے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم نے جے آئی ٹی بنانی ہے، کسی نے بحث کرنی ہے تو آجائے۔ عدالت نے انور مجید فیملی کو شامل تفتیش ہونے اور ایف آئی اے کے سامنے پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔ 

واضح رہےکہ ایف آئی اے بے نامی اکاؤنٹ سے منی لانڈرنگ کیس میں 32 افراد کے خلاف تحقیقات کر رہی ہے جن میں آصف علی زرداری اور فریال تالپور بھی شامل ہیں ۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ایف آئی اے بے نامی اکاؤنٹ سے منی لانڈرنگ کیس میں 32 افراد کے خلاف تحقیقات کر رہی ہے، جس میں آصف علی زرداری اور فریال تالپور بھی شامل ہیں جب کہ اسی سلسلے میں گزشتہ دنوں نجی بینک کے سابق صدر حسین لوائی کو گرفتار کیا گیا تھا۔

پس منظر
منی لانڈنگ کیس 2015 میں پہلی دفعہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے اٹھایا گیا، اسٹیٹ بینک کی جانب سے ایف آئی اے کو مشکوک ترسیلات کی رپورٹ یعنی ایس ٹی آرز بھیجی گئیں۔ حکام کے دعوے کے مطابق جعلی اکاؤنٹس بینک منیجرز نے انتظامیہ اور انتظامیہ نے اومنی گروپ کے کہنے پر کھولے اور یہ تمام اکاؤنٹس 2013 سے 2015 کے دوران 6 سے 10 مہینوں کے لیے کھولے گئے جن کے ذریعے منی لانڈرنگ کی گئی اور دستیاب دستاویزات کے مطابق منی لانڈرنگ کی رقم 35ارب روپے ہے۔

مشکوک ترسیلات کی رپورٹ پر ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ کے حکم پر انکوائری ہوئی اور مارچ 2015 میں چار بینک اکاؤنٹس مشکوک ترسیلات میں ملوث پائے گئے۔ ایف آئی اے حکام کے دعوے کے مطابق تمام بینک اکاؤنٹس اومنی گروپ کے پائے گئے، انکوائری میں مقدمہ درج کرنے کی سفارش ہوئی تاہم مبینہ طور پر دباؤ کے باعث اس وقت کوئی مقدمہ نہ ہوا بلکہ انکوائری بھی روک دی گئی۔ دسمبر 2017 میں ایک بار پھر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے ایس ٹی آرز بھیجی گئیں، اس رپورٹ میں مشکوک ترسیلات جن اکاؤنٹس سے ہوئی ان کی تعداد 29 تھی جس میں سے سمٹ بینک کے 16، سندھ بینک کے 8 اور یو بی ایل کے 5 اکاؤنٹس ہیں۔

کرٹیسی : سماء





Post a Comment

أحدث أقدم