قمرؔ سنبھلی
آئینہ بھی ۔۔ آئینے میں منظر بھی اُسی کا
ہے آنکھ کی پُتلی میں ۔۔ سمندر بھی اُسی کا
تاریکیٔ شب ۔۔ صبح کا منظر ۔۔ بھی اُسی کا
یہ لشکرِ ۔۔ مہر و مہ و اختر ۔۔۔ بھی اُسی کا
جب چاہے فلک سر سے زمیں پاؤں سے چھینے
چادر بھی اُسی کی ہے ۔۔ یہ بستر بھی اُسی کا
مستور خزانے ہیں ۔۔ سمندر میں اُسی کے
نکلے جو صدف سے وہ ہے گوہربھی اُسی کا
دیکھیں تو کہیں کوئی مکاں اُس کا نہیں ہے
ڈھونڈیں تو ہر اک دل میں ملے گھر بھی اُسی کا
طوفاں میں کرے غرق کہ ساحل سے لگائے
کشتی بھی اُسی کی ہے ۔۔ سمندر بھی اُسی کا
سب مال و متاع اپنے حوالے ہیں اُسی کے
یہ دل بھی اُسی کا ہے ، مرا سر بھی اُسی کا
ہاتھوں میں اُسی کے ہیں دو عالم کی طنابیں
یہ دورِ زماں ، عرصۂ محشر ۔۔۔ بھی اُسی کا
ایمان قمرؔ ظاہر و باطن پہ ہے میرا
اندر بھی اُسی کا مرا باہر بھی اُسی کا
إرسال تعليق