دشتِ تنہائی سے بڑھتا ہوا درّ و دیوارتک آپہنچا
ہاتھ جو بالوں سے پھسـلا تورخسار تک آ پہنچا
اب تو اور بھی بڑھ گئی ہے منزل کی طلب کہ
رستہ قــدمـوں سےنکلا ہوا کوۓ یار تک آپہنچا
وہ شخص جوکبھی میرےمعیارتک نہ پہنچ پایا
وہـی شـخـص آج میـرے کـردار تکـــــ آ پہـنـچا
تم ہی بتاؤ کہ اب عاجـز بنیں یا خـوددار بنیں؟
معـاملہ تلـوار سے ہـوتا ہـوا اب وار تک آ پہنـچا
سخن ورو ! اسے کس نام سے موسوم کرتے ہیں؟
یہ جـو عشـق و محبـت اب کاروبار تکـــ آ پہنچا
اسے کیاجواب دیں کہ اب کیوں ہیں لب بستہ؟
میری خاموشیوں کااثر اسکےاستفسارتک آ پہنچا
اب تو محبت بھی وہ پہلےجیسی گھریلو نہ رہی
کہ دل لینے دینے کا سلسلہ اب بیوپار تک آ پہنچا
سرِورق ہمارا بھی تو نام لکھوان خریداروں میں
مثلِ یوسف جو حسن بِکتا ہـوا بازار تک آ پہنـچا
اے عشق تجھ سے تعلّق کا کوئی جواز نہیں بنتا
کہ تیرا معیـار گـرتا ہوا درھـم و دینار تک آ پہنچا
اب تو ایک ہی تمنا ہے کہ کسی دن ہم بھی سنیں
کہ تیرا ٹوٹا پھوٹا دیوان کسی شاہکار تک آ پہنچا
إرسال تعليق