سادہ مزاج تھے ہم مُورت پہ لٹ گئے
سیرت نہ دیکھ پائے صورت پہ لٹ گئے
کچھ پوچھیے نہ اجڑے گلشن کی داستاں
غنچے لٹے ہیں جتنے غربت پہ لٹ گئے
کس نے کہا کہ تیرے ہاتھوں لُٹے ہیں ہم
بس خامشی سے دل کی حسرت پہ لُٹ گئے
جھکتے ہیں آ کے سارے اہلِ خرد یہاں
اے شہرِ یار تیری نسبت پہ لٹ گئے
تُو نے ہمارے جذبے پامال کر دیئے
اے یار ہم تو تیری غیرت پہ لٹ گئے
رکھا ترے تقدس کا پاس ہم نے جو
معصوم سی اس اپنی فطرت پہ لٹ گئے
سعید احمد سجاد
إرسال تعليق