میں نے اِس طور سے چاہا تجھے اکثر جاناں
جیسے مہتاب کو بے انت سمندر چاہے
جیسے سورج کی کرن سِیپ کے دل میں اُترے
جیسے خوشبو کو ہِوا رنگ سے ہٹ کر چاہے
جیسے پتھر کے کلیجے سے کرن پھوٹتی ہے
جیسے غُنچے کھِلے موسم سے حنا مانگتے ہیں
جیسے خوابوں میں خیالوں کی کماں ٹُوٹتی ہے
جیسے بارش کی دعا آبلہ پا مانگتے ہیں
میرا ہر خواب میرے سچ کی گواہی دے گا
وسعتِ دید نے تجھ سے تیری خواہش کی ہے
میری سوچوں میں کبھی دیکھ سراپا اپنا
میں نے دنیا سے الگ تیری پُرستش کی ہے
خواہشِ دید کا موسم کبھی دُھندلا جو ہوا
نوچ ڈالی ہیں زمانوں کی نقابیں میں نے
تیری پلکوں پہ اترتی ہوئی صبحوں کے لیے
توڑ ڈالی ہیں ستاروں کی طنابیں میں نے
میں نے چاہا کہ تیرے حُسن کی گُلنار فضا
میری غزلوں کی قطاروں سے دہکتی جائے
میں نے چاہا کہ میرے فن کے گُلستاں کی بہار
تیری آنکھوں کے گُلابوں سے مہکتی جائے
طے تو یہ تھا کہ سجاتا رہے لفظوں کے کنول
میرے خاموش خیالوں میں تکلّم تیرا
رقص کرتا رہے بھرتا رہے خوشبو کا خمار
میری خواہش کے جزیروں میں تبسّم تیرا
تُو مگر اجنبی ماحول کی پروردہ کِرن
میری بُجھتی ہوئی راتوں کو سحر کر نہ سکی
تیری سانسوں میں مسیحائی تھی لیکن تُو بھی
چارۂ زخمِ غمِ دیدۂ تر کر نہ سکی
تجھ کو احساس ہی کب ہے کہ کسی درد کا داغ
آنکھ سے دل میں اتر جائے تو کیا ہوتا ہے
تُو کہ سِیماب طبیعت ہے تجھے کیا معلوم
موسمِ ہِجر ٹھہر جائے تو کیا ہوتا ہے
تُو نے اُس موڑ پہ توڑا ہے تعلق کہ جہاں
دیکھ سکتا نہیں کوئی بھی پلٹ کر جاناں
اب یہ عالم ہے کہ آنکھیں جو کھُلیں گی اپنی
یاد آئے گی تیری دید کا منظر جاناں
مجھ سے مانگے گا تِرے عہدِ محبت کا حساب
تیرے ہِجراں کا دہکتا ہوا محشر جاناں
یوں مِرے دل کے برابر تیرا غم آیا ہے
جیسے شیشے کے مقابل کوئی پتھر جاناں !!
شاعر نا معلوم
إرسال تعليق