اردو شاعری : تلخی زبان تک تھی وہ دل کا برا نہ تھا

تلخی زبان تک تھی وہ دل کا برا نہ تھا
مجھ سے جدا ہوا تھا مگر بے وفا نہ تھا​
طرفہ عذاب لائے گی اب اس کی بددعا
دروازہ جس پہ شہر کا کوئی کھلا نہ تھا​
شامل تو ہوگئے تھے سبھی اک جلوس میں
لیکن کوئی کسی کو بھی پہچانتا نہ تھا​
آگاہ تھا میں یوں تو حقیقت کے راز سے
اظہار حق کا دل کو مگر حوصلہ نہ تھا​
جو آشنا تھا مجھ سے بہت دور رہ گیا
جو ساتھ چل رہا تھا مرا آشنا نہ تھا​
سب چل رہے تھے یوں تو بڑے اعتماد سے
لیکن کسی کے پاؤں تلے راستہ نہ تھا​
ذروں میں آفتاب نمایا تھے جن دنوں
واصف وہ کیسا دور تھا وہ کیا زمانہ تھا​







Post a Comment

أحدث أقدم