رخ روشن پہ زلفوں کا یہ گرنا جان لیوا ہے
اور اس پر یہ ستم دلبر ہٹانا بھول جاتا ہے
اگر ہے بھولنا مجھ کو کسی سے پیار کر لینا
نیا بنتا ہے جب رشتہ پرانا بھول جاتا ہے
اسی باعث میں سینے سے اسے اڑنے نہیں دیتا
یہ دل ایسا پرندہ ہے ٹھکانا بھول جاتا ہے
ہمیں ہے وصل کی خواہش مگر یہ کام دنیا کے
میں جانا بھول جاتا ہوں وہ آنا بھول جاتا ہے
کسی سے کیا کروں شکوہ ملے ہیں زخم ہی ایسے
کہ جن پر وقت بھی مرہم لگانا بھول جاتا ہے
کوئی آسیب ہے شاید تمہارے شہر میں ثانیؔ
یہاں پہ رہنے والا مسکرانا بھول جاتا ہے
شاعر: سہیل ثانی
إرسال تعليق