جسٹس وقار کا دماغی معائنہ واقعی کروا ہی لیں!
انصار عباسی23 دسمبر ، 2019
جنرل مشرف کی سزائے موت کے فیصلے پر اٹھنے والا طوفان تھمتا نظر آ رہا ہے جو اچھی بات ہے کیونکہ عدالتی فیصلے کی بنیاد پر اداروں کے درمیان ٹکرائو کی صورتحال کا پیدا ہونا کسی طور پاکستان کے لیے اچھا نہیں اور وہ بھی ایک ایسے فرد کی وجہ سے جس نے ایک نہیں دو بار آئین شکنی کی اور اپنے آمرانہ دور میں وہ کچھ کیا جس کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا اور جس کا ملک اور قوم کو شدید نقصان پہنچا۔
بغیر سوچے سمجھے اور تفصیلی فیصلے کے آنے سے بھی پہلے فوری طور ایسا ردعمل دینا جس میں غصہ جھلک رہا ہو، نہ حکومت اور نہ ہی ریاست کے کسی ادارے کے لیے مناسب تھا۔ چلیں! جو ہوا سو ہوا، کم از کم اب احساس ہو رہا ہے کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔
گزشتہ رات ایک ٹی وی پروگرام میں ایک ریٹائرڈ جنرل صاحب نے مجھ سے اس بات پر اتفاق کیا کہ آئی ایس پی آر کے لیے بہتر ہوتا کہ وہ خود اس معاملے میں کچھ نہ بولتے۔
سابق جنرل حضرات یا حکومت کی طرف سے ہی فیصلے پر ردعمل آتا تو کافی تھا۔ لیکن کیا کریں، یہاں تو حکومت کا حال یہ ہے کہ اس کو معاملات سلجھانے کا سلیقہ تو نہیں آتا لیکن بگاڑنے میں کبھی پیچھے نہیں رہتی۔
حکومتی ذمہ داروں نے گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران بارہا ثابت کیا ہے کہ غیر سنجیدگی کی اِن کے لیے کوئی حد نہیں اور کسی معاملے کو سمجھداری اور حکمت کے ساتھ سلجھانے کی ان سے توقع رکھنا ہی بیکار ہے۔
ورنہ مشرف کے خلاف اسپیشل کورٹ کے فیصلے کے بعد‘ کیا حکومت کے لیے مناسب نہ تھا کہ فوجی قیادت سے کہتی کہ آئی ایس پی آر کو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں، حکومت خود اس معاملے کو ہینڈل کر لے گی۔ لیکن حکومت نے ہینڈل کرنے کا جو طریقہ اپنایا وہ انتہائی بھونڈا تھا۔
اپنے وزیروں، اٹارنی جنرل وغیرہ سے پریس کانفرنس کروا کر پہلے تو یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ جیسے جنرل مشرف تحریک انصاف اور حکومت کا کوئی بڑا ہیرو ہے جس سے بڑی زیادتی ہو گئی ہے۔
پرویز مشرف کی سزائے موت کے تفصیلی فیصلے پر حکومت کا ردّ عمل
ماضی میں اپنے رہنما اور وزیراعظم عمران خان کے مشرف سے متعلق بیانات کو یکسر فراموش کرتے ہوئے ان وزیروں، مشیروں نے تو جیسے عدلیہ پر حملہ کر دیا ہو اور اس حد تک چلے گئے کہ خصوصی عدالت کے سربراہ اور پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس محترم جسٹس وقار سیٹھ کے دماغ کے معائنہ کروانے تک کی بات کر دی۔
ان حکومتی وزیروں مشیروں جن کی اکثریت ماضی میں مشرف کی ساتھی رہی، کا مقصد جسٹس وقار کی تضحیک کرنا تھا تاہم میں نے سوشل میڈیا پہ اپنے ایک پیغام میں لکھا کہ حکومت کو جسٹس صاحب کے دماغ کا ضرور معائنہ کروانا چاہیے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ پاکستان کی تاریخ میں یہ کیسا جج پیدا ہو گیا جس نے ایک آمر کو آئین شکنی پر سزائے موت سنا دی۔
ورنہ ہمیں تو جسٹس منیر اور جسٹس ثاقب نثار جیسوں کو دیکھنے کی عادت سی ہو گئی ہے۔حکومت نے یہ بھی اعلان کیا کہ جسٹس وقار کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس فائل کر کے اُنہیں عدلیہ سے ہی فارغ کروایا جائے گا، لیکن شکر ہے کہ جوں جوں وقت گزر رہا ہے حکومت کو بھی کچھ احساس ہو رہا ہے کہ جلدی میں جو ہوا وہ شاید اچھا نہ تھا۔
اب میڈیا کے ذریعے حکومت کے حوالے سے یہ خبریں سامنے آ رہی ہیں کہ جسٹس وقار کے متعلق ریفرنس میں کوئی جلدی نہیں بلکہ اس بارے میں سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا جائے گا۔
جنرل مشرف کے پاس اپیل کا موقع موجود ہے اور اُن کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی سزائے موت کو سپریم کورٹ میں چیلنج کریں لیکن عمران خان حکومت کو اس بات پر ضرور غور کرنا چاہیے کہ کہیں وہ مشرف کی حمایت کر کے پاکستان کے ساتھ دشمنی تو نہیں کر رہی۔ بلکہ مجھے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کے قانونی مشیروں فروغ نسیم، انور منصور اور شہزاد اکبر نے تحریک انصاف اور عمران خان کی اپنی سوچ (جس کا ماضی میں بارہا اُنہوں نے اظہار کیا) پر اُس سوچ کو مسلط کر دیا جو جنرل مشرف کی تھی۔
یاد رہے کہ فروغ نسیم، انور منصور اور شہزاد اکبر تینوں کا جنرل مشرف سے تعلق رہا جو وہ بڑی خوش اسلوبی سے اب بھی نبھا رہے ہیں۔
جہاں تک فوج کے ترجمان کے ردعمل کا تعلق ہے تو میں اُن حضرات سے اتفاق کرتا ہوں کہ مشرف کی سزا پر فوج کی طرف سے ایسے ردعمل کی ضرورت نہ تھی۔ جنرل مشرف اب ایک سیاستدان ہیں، اُنہوں نے فوج کے حلف کے برعکس اور آئین و قانون کی منشا کے خلاف دوبار مارشل لا لگایا جس سے فوج کی بدنامی ہوئی۔
اس کے علاوہ مشرف نے اپنی آمریت کے دوران جو جو فیصلے کیے، جس قسم کے اقدامات کیے اور جس طرح پاکستان کو شدید نقصان پہنچایا اُس پر مشرف کو پاکستان کی تاریخ کے سب سے متنازع ڈکٹیٹر کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ مشرف نے تو اپنے دور میں اپنے ذاتی مفادات اور اپنے آمرانہ فیصلوں کی وجہ سے فوج کی ساکھ کو بھی بہت نقصان پہنچایا تھا۔
مشرف بیمار ہیں، اُن کی صحت کے لیے بحیثیت مسلمان ہمیں دعا ضرور کرنی چاہیے، اگر مشرف سے کسی کو ہمدردی ہے تو اس کے اظہار کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اُنہیں مشورہ دیں کہ اپنے رب کے حضور دن رات توبہ کریں۔ لیکن جہاں تک عدالتی معاملات کا تعلق ہے تو اُنہیں آئین و قانون کے مطابق ہی چلنے دیں، اسی میں سب کی بہتری ہے۔
إرسال تعليق