ایسا نہیں کہ منہ میں ہمارے زباں نہیں
ہیں کم سخن ضرور پہ عاجز بیاں نہیں
ہر چند جانتے ہیں اسے ہم قریب سے
پر کیا کریں کہ پاۓ سخن درمیاں نہیں
اچھا تو ایک پل کے لئے ہی اٹھا کے دیکھ
اے آسماں جو بار امانت گراں نہیں
خود ہم میں تاب دید نہیں ہے یہ اور بات
رہتا ہے وہ نگاہ کے آگے کہاں نہیں
فرخؔ کہیں نہ سن کے کرے وہ بھی ان سنی
کہتے ہیں اس سے اس لئے درد نہاں نہیں
فرخ جعفری
إرسال تعليق