جذبات کی راہوں پہ رواں کر دیا مجھ کو
اک شخص کی باتوں نے جواں کر دیا مجھ کو
میں نے تو بہت خود کو چھپایا پسِ گفتار
اس نے مرے چہرےسے عیاں کر دیا مجھ کو
کیا اشک بہائے مری روداد پہ اُس نے
میں آگ کا شعلہ تھا دھواں کر دیا مجھ کو
دی اپنے مراسم کی کچھ ایسی مجھے پہچان
اُس شخص نے بے نام و نشاں کردیا مجھ کو
میں بولنا چاہوں بھی تو بنتے نہیں الفاظ
تقدیر نے گونگے کی زباں کر دیا مجھ کو
لرزاں تھی یہ دھرتی مرے قدموں کی دھمک سے
حالات نے بے تاب و تواں کر دیا مجھ کو
میں اپنی وفا میں ہوں قتیلؔ آج بھی قیدی
اُس زلف نے آزاد کہاں کردیا مجھ کو
قتیل شفائی
إرسال تعليق