عشق کے ماروں کو کورا بدن یاد نہیں
عشق کے ماروں کو کورا بدن یاد نہیں
جیسے اس روح کو من کا چمن یاد نہیں
تم یہ غفلت میں پڑھے ہو کیوں مورکھ بتلاٶں
تم کو کیونکر یہ ترا ہی کفن یاد نہیں
کون جیتا ہے محبت میں اور مرتا ہے کون
عشق والوں کو محب کا زمن یاد نہیں
اجنبی میں ہوں وطن میں مرا کوٸی نہیں
میں مسافر ہوں مجھے وہ وطن یاد نہیں
تو عبادت میں مگن اور ھو میں گُم ہو اَمیر
لوگ سمجھے یہ مگن کو مگن یاد نہیں
وہ ہمارا ہے سجن ہم بھی تو اس کے سجن
بات بگڑی کہ سجن کو سجن یاد نہیں
روز ہنگام مرے سامنے ہوتے نہیں
میری ان آنکھوں کو برما یمن یاد نہیں
سب برابر ہیں سبھی علم والے سنو پر
یہ علم والوں کو ہی انجمن یاد نہیں
تیز طوفان اڑا کر ہوا چلا کہِ
یہ ہوا کی سی سنا سن سنن یاد نہیں
میں محبت کے علم میں پَلا ہوں اے جناب
تیری نفرت کا ہمیں یہ زمن یاد نہیں
تشنہ لب پر ہی نظر ڈال ساقی پِلا دے
تم کو مے خانہ میں کیا دل شکن یاد نہیں
یہ جو دنیا ہے بہت ظلم ڈھاتی ہے مگر
أس جہاں کو بھی قیامت کا دن یاد نہیں
روشنی ہونے نہیں دیتے یہ زیست میں لوگ
تم کسی کہکشاں کے ہو رُکن یاد نہیں
رند انساں ہوں تری بزم کا یار میں بھی
بزمِ رنداں میں چھپا ہم سخن یاد نہیں
شاعر امیر عثمان
إرسال تعليق