Sectarian forces have been active again# فرقہ پرست قوتیں ایک بار پھر سرگرم


#Sectarian forces have been active again  فرقہ پرست قوتیں ایک بار پھر سرگرم

























ملک بھر میں فرقہ ورانہ دہشت گردی کے واقعات ایک بار پھر سے رونما ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ کراچی میں ہفتہ کو مدرسہ کے طالب علم دو سگے بھائیوں اور پولیس اہلکاروں سمیت 17 افراد جاں بحق ہو گئے۔ اتوار کو بلدیہ ٹائون کراچی میں دو موٹر سائیکل سواروں کی فائرنگ سے دو پولیس اہلکار جاں بحق ہو گئے۔ ملک میں ایک عرصے سے فرقہ ورانہ دہشت گردی کی وارداتوں میں ٹھہرائو آ گیا تھا جس سے انتظامیہ سمیت عام شہریوں نے بھی سکھ کا سانس لیا تھا مگر دس محرم الحرام کو سانحہ راولپنڈی کے بعد فرقہ ورانہ واقعات کی لہر چل پڑی ہے۔ گزشتہ دنوں لاہور میں ایک مذہبی جماعت کے رہنما مولانا شمس الرحمن معاویہ کو قتل کر دیا گیا تھا۔ جمعہ کو اسلام آباد میں ایک مذہبی رہنما مفتی منیر معاویہ اور ان کے ساتھی اسد محمود کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا تھا۔ اب کراچی میں دینی مدرسے کے دو طالب علم  بھائیوں عابد معاویہ اور ساجد معاویہ کو قتل کر دیا گیا ہے۔ حیرت انگیز امر ہے کہ دہشت گردی کی ان وارداتوں میں نشانہ بننے والے چاروں افراد کے نام کا لاحقہ یکساں ہے جو اس امر کا غماز ہے کہ کوئی خفیہ قوت انتہائی منصوبہ بندی کے ذریعے ملک بھر میں دہشت گردی کو ہوا دینے کے لیے سرگرم ہو چکی ہے جس کا ایجنڈا ہی یہ ہے کہ ملک میں مسلکی اختلافات کی آڑ میں افراتفری پھیلا کر امن غارت کر دیا جائے۔
پنجاب ملک کے دیگر صوبوں کی بہ نسبت پر امن خطہ ہے جہاں تمام تر مسلکی اختلافات کے باوجود شہری اتفاق، محبت اور رواداری کے علمبردار اور ہر قسم کی دہشت گردی کے خلاف صف آرا ہیں۔ کراچی میں رینجرز ترجمان نے اپنے بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ جمعہ کی رات سے لے کر ہفتہ کے دن تک دس افراد کی ٹارگٹ کلنگ کے پیچھے ایک تنظیم کے ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں جو شہر کی امن و امان کی صورتحال خراب کرنے کی سازش کا حصہ ہیں‘ رینجرز نے تمام شواہد اکٹھے کر لیے ہیں اور جلد ہی اصل کرداروں کی گرفتاری عمل میں لائی جائے گی۔ رینجرز نے اگر تمام شواہد اکٹھے کر لیے ہیں تو اصل ملزموں کو فوری بے نقاب کرنا چاہیے تاکہ ملک میں فرقہ ورانہ فسادات کرانے کی سازش کرنے والوں کو قانون کی گرفت میں لایا جا سکے۔ صوبہ خیبر پختونخوا‘ کوئٹہ اور کراچی کے حالات دہشت گردی کی وارداتوں کے باعث ایک طویل عرصہ سے خراب چلے آ رہے ہیں۔ دہشت گرد سیکیورٹی اداروں پر حملے کر رہے اور ملکی سلامتی کے لیے چیلنج بن چکے ہیں۔ یہ دہشت گرد علی الاعلان پاکستانی آئین ہی کو تسلیم نہیں کر رہے اور دہشت گردی کی وارداتیں جاری رکھنے کا اعلان کر رہے ہیں۔
کچھ مذہبی جماعتیں جو خود پاکستانی آئین کے تحت ہونے والے جمہوری انتخابات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں‘ ان انتہا پسندوں کی حمایت کر رہی ہیں۔سیاسی اور نظریاتی حوالے سے سوچ اور کردار کی سمت واضح ہونی چاہیے کہ جمہوریت کے تحت ہونے والے انتخابات میں حصہ لینے والوں کو جمہوریت کے خلاف اعلان جنگ کرنے والوں کا ساتھ نہیں دینا چاہیے۔ بدقسمتی سے ریاستی سطح پر انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کی سرپرستی کی جاتی رہی جس کا نتیجہ بھیانک صورت میں سامنے آیا ہے اور آج یہ انتہا پسند اور دہشت گرد ریاست کے کنٹرول سے باہر ہو کر اسے مسلسل چیلنج کر رہے ہیں۔ اب ریاستی اداروں کو انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کے خلاف واضح اور درست سمت میں پالیسی وضع کرنا ہو گی کہ اسے کن لوگوں کے ساتھ چلنا ہے۔ وہ گروہ جو معصوم شہریوں اور سیکیورٹی اہلکاروں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ رہے اور اپنے نظریات کے مطابق اسے درست اور جائز فعل قرار دے رہے ہیں، ریاستی اداروں کو ان کے خلاف بھرپور کارروائی کرنا ہوگی اور ان کی سرپرستی کرنے والے افراد کو بھی قانونی شکنجے میں کسنا ہو گا۔ فرقہ واریت کا زہر پھیلانے والے موت کے سوداگروں نے جو خونی کھیل ایک بار پھر شروع کر دیا ہے اگر حکومت نے اسے روکنے کے لیے مناسب اقدامات نہ کیے تو یہ سلسلہ بڑھتا ہی چلا جائے گا۔ روایتی نظام کے تحت تربیت پانے والے پولیس اہلکار دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔
دہشت گردوں کے پاس جدید اسلحہ‘ جدید آلات اور وسائل بھی زیادہ ہیں‘ ان سے نمٹنے کے لیے پولیس اہلکاروں کی تربیت اور ہتھیاروں کا معیار بہتر بنانا ہو گا۔ تمام سیکیورٹی اداروں اور انٹیلی جنس اداروں کے درمیان مربوط رابطے کا نظام قائم کیا جائے‘ انٹیلی جنس شیئرنگ جتنی موثر اور مربوط ہو گی سیکیورٹی اداروں کے لیے دہشت گردی پر قابو پانے میں اتنی ہی آسانی ہو گی۔ عدالتی نظام میں موجود بعض سقم کو ختم کرنا ہو گا کیونکہ سیکیورٹی اداروں کو یہ شکایت چلی آرہی ہے کہ ان کے پکڑے ہوئے دہشت گرد عدالتوں سے رہا ہو جاتے ہیں اور اس طرح ان کی ساری محنت رائیگاں جاتی ہے‘ رہا ہونے والے یہ دہشت گرد پھر سے قتل و غارت گری کی وارداتوں میں ملوث ہو جاتے اور معاشرے میں امن و امان کا مسئلہ بنتے ہیں۔ حکومت دہشت گردی کی روک تھام کے لیے تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرے کیونکہ علما ہی وہ قوت ہیں جو دہشت گردی کے خاتمے اور عوام میں فرقہ ورانہ ہم آہنگی پیدا کرنے میں بنیادی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ دوسری جانب تمام شہریوں پر بھی یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ صبر و برداشت اور تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرقہ ورانہ فسادات کی سازش کو مل کر ناکام بنا دیں اور کسی ایسی سازش کا حصہ نہ بنیں جس کی قیمت امن و امان کی قربانی کی صورت میں دینا پڑے۔

Post a Comment

أحدث أقدم