Pani, Gas na Bijli, Sirf aur sirf be sharmi پانی، گیس نہ بجلی، صرف بے شرمی ہی بے شرمی ۔ ۔ ۔
گلوبل پِنڈ ( محمد نواز طاہر)دنیا بھر میں ہمارے بزرگوں کی ذہانت اپنی مثال آپ ہے لیکن ذہانت کے ساتھ ساتھ سادگی بھی لازوال اور’ انمول‘ ہیں جو آنے والے وقتوں میں ثقافتی و لٹریری آثارِ قدیمہ کا درجہ پائیں گی جس طرح یونانی علم کو یہ مقام حاصل ہے اور اس سے جدید علوم میں تھوڑی بہت تحریف و تحقیق کے بعد ’ جو انٹیلیکچوئل پراپرٹی رائٹس ‘ نے بل گیٹس جیسے لوگوں کو دنیا کا امیر ترین انسان بنا دیا حالانکہ کون نہیں جانتا کہ میتھ میٹکس کے کلئے کس کے تھے اور اس کا بانی کون تھا؟ یہی پوزیشن ہمارے بزرگوں کے محاوروں اور ان کی سادہ زندگی کی بھی ہے ۔ سادہ زمانے، سادہ خوراکیں اور اچھی صحتیں تھیں۔ ۔ ۔ میرے ایک تایا کو وناسپتی گھی سے شدید نفرت تھی ۔۔۔ وہ کہا کرتے تھے، ’انگریزی گھی ہماری نسلیں تباہ کردے گا‘۔۔۔ پتہ نہیں بابا جی ٹھیک کہتے تھے یا اُن کا دماغ ’چل‘ گیا تھا لیکن آج انگریزی اور دیسی تمام ماہرین نے ’بابے ‘ کی تائید کر دی ہے۔بابا دوسرے شہر کیلئے گھر سے نکلتے ہوئے بہت احتیاط برتتے تھے ، شکر اور گھی اپنے ساتھ رکھتے تھے ۔ شاہ عالمی میں ان کی بہت یادیں تھیں۔ وہ تیسری منزل پر بیٹھ کر فورمین گرلز سکول کا نظارہ کرتے تھے اور ساتھ ساتھ اپنے ماضی کو یاد کرتے تھے کہ کس طرح وہ سکول جانے والے اپنے ساتھیوں کو مذاق کیا کرتے تھے۔ ۔ ۔کارپوریشن کا کوارٹر الاٹ ہونے پر ماموں چوہان روڈ پر شفٹ ہوئے تو سب کو بہت ’دور‘ لگتا تھا ۔ اک دن بابا ادھر گئے تو اس وقت سرکاری نل کا پانی نہیں تھا۔ ابھی ٹینکیاں بنا کر پانی ذخیرہ (موجودہ مجبوری ) کرنے کا رواج عام نہیں تھا ۔ بابا جی کو پانی نہ ملا اور وہ ماموں کو خالص جانگلی ز بان کی’ پکی پکی ‘ سناتے بے شرم ،بے حیا یہاں تک کے بے غیرت قرار دیکر واپس لوٹ آئے۔ یہ پہلا دن تھا جب انہیں اپنے گردوں اور مثانوں کی وجہ سے رکشہ اچھا لگا ۔ وہ شاہ عالمی آکر ’ایزی‘ ہوئے اور فتویٰ جاری کردیا کہ اس’ مشٹنڈے ‘ کے گھر کوئی نہ جائے جس کے گھر میں پانی بھی نہیں ہوتا ۔ اس دن کے بعد سے بابا اس گھر میں کبھی نہیں گئے ۔ آج سو کر اٹھا توپانی نہیں تھا ، جنریٹر کی آواز بتا رہی تھی کبھی بجلی تھی بھی اور شائد کبھی آبھی جائے؟ ، گیس تو میرے سونے سے پہلے ہی کسی اور کے خواب’ سجا ‘رہی تھی۔ حالت دیوانوں جیسی ہو گئی، پوری عمارت مینٹل ہسپتال کے بلڈنگ لگ رہی تھی۔ تین چار کلومیٹر تک دوستوں کے گھر میں یہ’ رحمتیں‘موجود ہونے کے بارے میں سوچا اور فیصلہ کیا کہ چلیں پانچ چار میں سے کسی کے گھر میں تو’ خیر ‘پڑ ہی جائے گی۔ لازم تھا کہ کسی کو آگا ہ تو کیا جائے کہ میں آ رہاہوں کیونکہ وہ بھی اسی دنیا میں ہی رہتے ہیں اور ہوسکتا ہے ان میں سے بھی کوئی میرے جیسا فیصلہ کر چکا ہو چنانچہ میں نے سب کو اجتماعی اطلاع کردی اور پوچھ لیا کہ د و ستو!!! میں چائے پینے کیلئے آرہا ہوں کیا آپ کی گیس آرہی ہے؟؟؟ میرے پاس لائٹر نہیں۔۔۔ یہ بھی بتائیں کیا بجلی آرہی ہے؟؟؟ہو سکتا ہے راستے میں چہرہ خاک اور باقی جسم بلدیہ کی کھلی گاڑیاں کوڑادان بنادیں اور پانی کی ضرورت پڑ جائے ۔ ۔۔ اس لئے یہ بھی بتا دیں کہ کیا آپ کے گھر پانی آرہا ہے ؟؟؟ سب نے ایک ہی جواب دیا کہ بھائی ہم بھی آپ جیسے ہی ہیں۔ جواب الجواب بھی لازم تھا پس مطلع کردیا کہ بھائی اگر یہ سب کچھ نہیں آرہا تو کیا صرف میں ہی آ رہا ہوں؟؟؟ صرف میں نے ہی آ کر اپنے آپ کو اور آپ کو پریشان کرنا ہے تو پھر پانی، بجلی اور گیس کی طرح بہتر ہے کہ میں بھی نہ آﺅں۔ ۔ ۔ کیونکہ میں جانتا ہوں یہ نہ ہونے سے سب کونا کردہ گناہ پر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مجھے بابا یاد آگئے جن کا کہنا تھا کہ مہمان کیلئے گھر میں حقے، پانی کا انتظام نہ کرنے والا سے بڑا بے شرم ، بے غیرت ، ڈھیٹ اور واہیات انسان کوئی نہیں ہوتا ۔ بابا کی کہی ہوئی ساری باتیں درست مان لیتا ہوں لیکن کیا ساری قوم کیلئے یہ باتیں مانی جاسکتی ہیں ؟ اسے کوئی تسلیم نہیں کر ے گا مگر حقیقت تو وہی ہے جو بابا بتا گئے ۔ میں نے دوستوں کی عزت محفوظ رکھنے کیلئے کسی کے پاس بھی نہ جانے کا فیصلہ کیا جس طرح بابا نے کیا تھا مگر میں بابا جیسے الفاظ نہیں دہرا سکتا جو ہیں تو سچ مگر بہت کڑوے اور غیرت کے نام پر قتل کی نوبت لانے والے۔۔۔ وہ غیرت جو ہر لمحے ہمیں للکارتی ہے لیکن ہم خاموشی سے اپنی’ عزت ‘ کا بھرم رکھ لیتے ہیں ۔۔۔ کچھ سوچ کر فیصلہ کرتے ہیں، آنے جانے کا پیغام دیتے ہیں اور پھر خود ہی حالات کی نزاکت پر کہہ دیتے ہیں کہ پانی نہیں ہے اور جب بجلی اور گیس بھی نہیں آ رہی تو میں آ کر کیا کروں گا ۔ ۔ ۔
إرسال تعليق