حضرت عمرؓبہترین منتظم تھے ۔ حضرت عمرؓسے پانچ سو انتالیس احادیث مروی ہیں ۔
آپؓ کی صاحبزادی حضرت حفصہ ؓکو رسول اللہﷺ کی زوجہ ہونے کا شرف حاصل ہے ۔ حضرت عمر فاروق ؓ اعلانِ نبوت کے چھٹے سال اسلام لائے ۔ آپؓ کے قبولِ اسلام کے لیے رسول اللہ ﷺ نے اس طرح دعافرمائی کہ ’’اے اللہ! عمر بن خطاب کے ذریعہ اسلام کو غلبہ عطافرما‘‘
حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے(ایک روز دعاکرتے ہوئے )فرمایا ’’اے اللہ! عمر بن خطاب یا ابوجہل کے ذریعہ اسلام کو غلبہ عطافرما‘‘ ،پس اگلی صبح ہوئی تو حضرت عمر رسول اللہ ﷺ پر ایمان لاچکے تھے ،(سُنن ترمذی، رقم الحدیث:3683)‘‘۔آپؓکے قبولِ اسلام کے بعد مسلمان حرم شریف میں علی الاعلان نماز اداکرنے لگے اور اسلام کی شوکت میں اضافہ ہوا۔حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ جب حضرت عمرؓ اسلام لائے ،تو مشرکین نے کہا: آج ہماری طاقت آدھی رہ گئی ۔ حضرت ایوب بن موسیٰؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے عمر کی زبان اوردل پر حق جاری کردیاہے اوروہ فاروق ہے ،اللہ تعالیٰ نے اُس کے سبب سے حق اور باطل میں فرق کردیاہے ‘‘،(اُسدالغابہ،جلد4،ص:53-58)۔
حضرت عمرفاروق اعظم ؓکا مقام ومرتبہ بلند وبالا ہے، بے شمار مواقع پر آپ کے مشوروں کی تائید میں آیاتِ قرآنی نازل ہوئیں ۔
جو انفرادیت حضرت عمر ؓ کو حاصل ہے ،اُس کی نظیر اور مثال نہیں ملتی ۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
ترجمہ:’’اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا ،تو وہ عمر بن خطاب ہوتے،(سُنن ترمذی،رقم الحدیث:3686)‘‘۔
حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
ترجمہ’’ بے شک اللہ تعالیٰ نے نے عمر کی زبان اوردل پر حق جاری فرمادیا ہے ،(سُنن ترمذی،رقم الحدیث:3682)‘‘۔
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر حضرت عمرؓ کاعلم ترازوکے ایک پلڑے میں رکھاجائے اور باقی تمام لوگوں کاعلم ترازوکے د وسرے پلڑے میں ،تو حضرت عمر ؓکا علم زیادہ ہوگا۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :مجھے خواب میں دودھ پیش کیاگیا ،میں نے وہ دودھ پی لیا اوراپنا بچاہوا دودھ عمر کو دے دیا ،آپ ﷺسے پوچھاگیا:یارسول اللہ! آپ نے اس سے کیا تعبیر لی ہے؟
آپ ﷺ نے فرمایا:’’علم۔‘‘ (صحیح مسلم :6068)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی ﷺ فرماتے تھے:’’تم سے پہلے پچھلی اُمّتوں میں محدَّث تھے، اگر اس اُمّت میں کوئی محدَّث ہوگا، تو وہ عمر بن خطاب ہیں۔‘‘ (ابن وہب کہتے ہیں کہ محدَّث اُس شخص کو کہتے ہیں ،جس پر الہام کیا جاتا ہو) (صحیح مسلم :6082)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوبکرؓ سے بڑھ کر کسی کو رعیت کے حق میں بہتر اور مہربان نہیں دیکھا اور حضرت عمر فاروقؓ سے زیادہ کسی کو کتاب اللہ کاعالم ، دین میں فقیہ ، حدود الٰہیہ کانافذ کرنے والا اور رعب اور دبدبے والا نہیں دیکھا اورحضرت عثمان غنیؓ سے زیادہ کسی کو حیا دار نہیں دیکھا ۔ (اُسدالغابہ ،جلد4ص:60)
حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ ایک زبردست مُنتظم اور اعلیٰ صلاحیتوںکے حامل تھے ۔ آپؓ نے اپنے عہدِ خلافت میں جن اُمور کی بنیاد رکھی ، اُنہیں آپ کی اوّلیات کہاجاتاہے ، مثال کے طور پرحضرت عمر فاروقؓ نے ہجری تاریخ اورسال کا آغاز فرمایا۔ امام بخاری نے اپنی ’’تاریخ ‘‘ میں حضرت مُسیّبؓ سے روایت کیا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مشورے سے سب سے پہلے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے ڈھائی سال بعد تاریخِ اسلام لکھوانا شروع کی اور 16 ھجری تک کے واقعات تحریر کیے گئے ۔
آپ نے بیت المال قائم کیا ،حکومتی نظم ونسق کے لیے دفاتر ، ڈاک کا نظام ، وزارتیں ،انتظامی شعبہ جات اور پولیس کا محکمہ قائم فرمایا اور شہروں میں قاضی مُقرر کیے ۔ اسلامی فوج کو مُنظم کیا اور یہ حکم جاری کیا کہ چار مہینے سے زیادہ کسی مجاہدکو میدانِ جنگ یا فوجی بیرکوں میں نہ روکا جائے ۔ مساجد میں روشنی کا انتظام کیا ۔ حضرت علیؓ نے ماہِ رمضان المبارک میں مسجدِ نبویﷺ میں قندیل روشن دیکھی توفرمایا’’ اللہ تعالیٰ عمرؓ ؓکی قبر کو روشن فرمائے کہ اُنہوں نے ہماری مساجد کو روشن کیا ۔
آپ ؓکے دورِ خلافت میں بے شمار فتوحات ہوئیں ، دمشق ، بصرہ ،اُردن ، مدائن ، حلب، بیت المقدس (فسلطین)، نیشاپور، مصر اسکندریہ ، انطاکیہ، حلب، آذربائجان، اصفہان وغیرہ آپؓ ہی کے دورِ خلافت میں اسلامی سلطنت کا حصہ بنے ۔ حضرت عمر ؓ عوام کے حالات جاننے کے لئے راتوںکو گشت فرماتے ۔ صوف کا لباس زیب تن کیے ،جس میں جگہ جگہ پیوند لگے ہوتے ،ہاتھ میں دُرّہ تھامے بازار تشریف لے جاتے ، اہلِ بازار کی تربیت وتنبیہہ فرماتے ۔کسی کو عامل (گورنر) مقرر کرتے تو اُس کے تمام اثاثوں کی چھان بین کرکے فہرست بنالیتے ،جب کسی عامل کی مالی حیثیت میں غیر معمولی اضافہ دیکھتے، تو احتساب کے بعد وہ مال بیت المال میں جمع کروادیتے تھے۔ عاملوں کو عوام سے بھلائی کی نصیحت کرتے اور لوگوں سے شکایت ملنے پر اُس گورنر کو سزا بھی دیتے تھے ۔ہرعامل سے یہ عہد لیتے کہ ترکی گھوڑے پر سوار نہیں ہوگا ، باریک کپڑے نہیں پہنے گا ، چھنا ہواآٹا استعمال نہیں کرے گا ، دروازہ پر دربان نہیں رکھے گا، اہلِ حاجت کے لیے اپنے دروازے ہمیشہ کھلے رکھے گا ۔ آپ ؓ نے کوفہ ،بصرہ ،جزیرہ ، شام ،مصر اور موصل شہر آباد کیے ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ لوگوں کے اَحوال جاننے کے لئے راتوں کوآبادی کا گشت کرتے اور لوگوں کی مدد فرماتے ،زید بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ایک رات مدینہ کی گلیوں میں گشت کررہے تھے کہ ایک جگہ دیکھا کہ ایک عورت گھر میں بیٹھی ہے اور اُس کے گرد بچے بیٹھے رورہے ہیں اور پانی سے بھری دیگچی آگ پر رکھی ہوئی ہے ۔ حضرت عمرؓ نے پوچھاکہ یہ دیگچی آگ پر کیوں رکھی ہے ؟ اُس نے جواب دیاکہ بچوں کو بہلانے کے لیے تاکہ یہ سمجھیں کہ کھانا پک رہاہے اور انتظار کرتے کرتے سوجائیں ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ یہ سن کر رونے لگے اور بیت المال سے آٹا ،گھی ،کھجوریں ،چربی ،کپڑے اوردرہم لے کر ایک بوری میں ڈالے ، اپنے غلام اسلم سے کہا کہ یہ بوری مجھ پر لاد دو، غلام نے عرض کی : امیر المومنینؓ اس بوری کو میں اٹھالیتاہوں ،آپؓ نے فرمایا آخرت میں اس کے متعلق مجھ ہی سے سوال ہوگا، اس لیے یہ بوری مجھے ہی اٹھانے دو ،حضرت عمر رضی اللہ عنہ اُن کے گھر گئے اور خود اپنے ہاتھوں سے کھانا بناکر اُن کو کھلایا ، (اُسدالغابہ ، جلد4ص:48)‘‘۔
٭خلافتِ فاروقی میں اقلیتوں کے حقوق :
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں بھی قرآن وسنت کی تعلیمات کے مطابق اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا اہتمام کیاگیا ۔ جن مواقع پر اقلیتوں سے معاہدے کیے گئے، اُن معاہدوں میں شامل دفعات کو حتی المقدور اقلیتوں کے مفاد میں بہتر بنانے کے اقدامات بھی کیے ۔
بروز بدھ 26ذوالحجہ23ھ نمازِ فجر کے وقت ایک مجوسی ابولولو نے تیز دو دھاری زہر آلود خنجر سے آپؓ پر حملہ کرکے شدید زخمی کردیا ، ایک قول کے مطابق اُس نے آپ پر چھ وار کیے اورخنجر چلاتا ہوا بھاگا، اُس کے خنجر سے تیرہ آدمی زخمی بھی ہوئے، جن میں سے سات موقع پر ہی شہید ہوگیے ۔یکم محرم الحرام 24ھ آپؓ کی شہادت ہوئی ۔ حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے آپ کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور اُسی دن اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی اجازت سے رسول اللہﷺ اورحضرت ابو بکر صدیق ؓکے پہلو میں آسودہء خاک کیے گئے ۔آپ کی خلافت دس سال،پانچ ماہ اور اکیس دن رہی ۔
حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کی ذات تمام مسلمانوں کے لئے ایک مثال ہے ، بالخصوص مسلم حکم رانوں کے لیے آپؓ مینارۂ نور ہیں۔ ہمارے دور کے حکم راں رعایا کے مسائل سے بے نیاز اپنی عیاشیوں میں مصروف ہیں ۔زندگی کی بنیادی ضروریات کا پوراہونا تو دور کی بات ،لوگوں کے جان ومال تک محفوظ نہیں ۔معاشی ابتری اور بدحالی عرج پر ہے، منہگائی کا عفریت عوام کے سروں پر سوار، اُنہیں سکون کی زندگی گزارنے نہیں دیتا ۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ رعایا کی خبر گیری کے معاملے میں اتنے حساس نظر آتے ہیں کہ داؤد بن علی کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا :’’ اگر فرات کے کنارے ایک کتا بھی (پیاس سے ) مرگیا تومجھے ڈر ہے کہ اللہ مجھ سے اس کے متعلق سوال کرے گا ،(حلیۃ الاولیا:141) ‘‘
آپؓ نے اپنی شہادت کے وقت وصیت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ’’ میں اپنے بعد آنے والے خلیفہ کو مہاجرین اوّلین کے ساتھ نیک سلوک کی وصیت کرتا ہوں کہ وہ ان کے حقوق پہچانے اوراُن کی حرمت کی حفاظت کرے اور میں اُسے انصار کے ساتھ نیک سلوک کی وصیت کرتاہوں ،جنہوں نے مہاجرین کو اپنے گھروں میں ٹھکانہ دیا اور مہاجروں کی ہجرت سے پہلے ایمان لائے، ان کی نیکیوںکو قبول کیا جائے اوران کی خطاؤں کودر گزرکیاجائے اور میں اُسے وصیت کرتاہوں کہ اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کے ذمہ میں آنے والوں سے کیے ہوئے وعدے پورے کرے اوران کی حفاظت کے لیے لڑے اور اُن کو اُن کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہ دے،(صحیح بخاری : 1328)‘‘۔
اشاعت شدہ روزنامہ ایکسپریس 5 نومبر 2013
إرسال تعليق