خلافت فاروقی میں اقلیتو ں کے حقوق ومراعات
اگر یہ پوچھا جائے کہ انسانی ہیئتِ اجتماعیہ کے لئے حکومت کی ضرورت کیوں ہے؟ تو اس کا ایک ہی جواب ہوسکتا ہے اور وہ یہ کہ حکومت کی ضرورت عدل وانصاف کے لئے ہے اور کسی بھی حکومت کے عدل ومساوات کے جانچنے کا سب سے بڑا معیار یہ ہے کہ غیر قوموں کی اقلیتیوں کے ساتھ اس کا طرزِ عمل کیا ہے؟ اور ان کو اس حکومت میں کیا حقوق ومراعات حاصل ہیں۔ اس معیار سے فاروقی عہد‘ عدل ومساوات کا نمونہ تھا۔ حضرت عمر نے غیر مسلم رعایا کو جو حقوق دیئے اس کا مقابلہ اگر اس زمانے کی دیگر سلطنتوں سے کیا جائے تو کسی طرح کا تناسب نظر نہیں آتا۔ کسی بھی قوم کے حقوق کو چار عنوانات کے ذیل میں بیان کیا جاسکتاہے:۱․․․ جان ۲․․․ مال۳․․․ عزت وآبرو اور۴․․․ مذہب‘ ان کے علاوہ جو انسانی وقومی حقوق ہوتے ہیں وہ سب انہیں کے ماتحت آتے ہیں۔ حضرت عمر کے عہد میں غیر مسلموں کو یہ حقوق حاصل تھے‘ مفتوحہ اقوام سے جو معاہدے ہوئے‘ وہ اس حقیقت پر شاہد ہیں ۔ ۱۶ ہجری ۶۳۷ء میں بیت المقدس کا معاہدہ حضرت عمر کی موجودگی میں آپ کے الفاظ میں تحریر ہوا تھا‘ علامہ جریر طبری نے اپنی تاریخ میں اس کو مفصل بیان کیا ہے‘ حضرت فاروق اعظم کے معاہدہ الفاظ یہ تھے: ”یہ وہ امان ہے جو خدا کے غلام امیر المؤمنین عمر نے ایلیا کے لوگوں کو دی‘ یہ امان ان کی جان‘ مال‘ گرجا‘ صلیب‘ تندرست‘ بیمار اور ان کے تمام مذہب والوں کے لئے ہے‘ اس طرح پر کہ ان کے گرجوں میں سکونت نہ کی جائے گی‘ نہ وہ ڈھائے جائیں گے‘ نہ ان کو اور نہ ان کے احاطہ کو کچھ نقصان پہنچایا جائے گا‘ نہ ان کی صلیبوں اور ان کے مال میں کچھ کمی کی جائے گی‘ مذہب کے بارے میں ان پر جبر نہ کیا جائے گا‘ نہ ان میں سے کسی کو نقصان پہنچایا جائے گا“۔ اس معاہدہ پر حضرت عمر کے علاوہ بڑے بڑے صحابہ کرام نے دستخط ثبت فرمائے ۔ جرجان کی فتح کے وقت جو معاہدہ رقم ہوا‘ اس کے یہ الفاظ قابلِ ملاحظہ ہیں:
”ان کے جان‘ مال اور مذہب وشریعت کو امان ہے اور اس میں سے کسی شے میں تغیر نہ کیا جائے گا“۔
آذر بائیجان اور موقان کے معاہدات میں بھی جان‘ ما ل اور مذہب کے تحفظ کے بارے میں ایسی ہی تصریحات پائی جاتی ہیں۔ حضرت عمر اپنے عمال کو ان معاہدوں کی تاکید لکھتے رہتے تھے‘ حضرت ابو عبیدہ فاتح شام کو لکھا:
”مسلمانوں کو ذمیوں (اقلیتوں) پر ظلم کرنے‘ ان کو نقصان پہنچانے اور بے وجہ ان کا مال کھانے سے روکو اور ان سے جو شرطیں طے کی گئی ہیں‘ ان کو پورا کرو“۔
شاہ ولی اللہ نے ”ازالة الخفاء“ میں حضرت عمر کے اس وصیت نامہ کا ذکر کیا ہے جس میں آپ نے ذمیوں کے حقوق کے بارے میں اپنے بعد آنے والے خلیفہ کو وصیت کی تھی کہ: ”ان کے عہد وپیمان کو پورا کیا جائے‘ ضرورت پڑے تو ان کی حمایت میں لڑائی کی جائے اور طاقت سے زیادہ انہیں تکلیف نہ دی جائے“۔
علامہ شبلی نعمانی نے اپنی معروف کتاب ”الفاروق“ میں لکھا ہے:
”مذہبی امور میں ذمیوں کو پوری آزادی تھی اور وہ ہرقسم کی رسوم مذہبی ادا کرتے تھے۔ علانیہ ناقوس بجاتے تھے‘ صلیب لٹکاتے تھے‘ ہرقسم کے میلے ٹھیلے کرتے تھے‘ ان کے پیشوایانِ مذہبی کو جو مذہبی اختیارات حاصل تھے‘ بالکل برقرار رکھے گئے“۔
علامہ ابن سعد نے اپنی ”طبقات“ جلد پنجم میں لکھا ہے کہ:
” حضرت عمر اسلام کی اشاعت کی اگرچہ نہایت کوشش کرتے تھے اور منصبِ خلافت کے لحاظ سے ان کا یہ فرض بھی تھا‘ لیکن وہیں تک جہاں وعظ اور پند کے ذریعے ممکن تھا‘ آپ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ: مذہب کے قبول کرنے پر کوئی شخص مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ اشتق ان کا ایک عیسائی غلام تھا‘ اس کو ہمیشہ اسلام قبول کرنے کی ترغیب دیتے تھے‘ لیکن جب اس نے انکار کیا تو فرمایا۔ ”لااکراہ فی الدین“ یعنی دین میں زبردستی نہیں ہے“۔
حضرت عمر نے غیر مسلموں کی جان ومال کو مسلمانوں کے جان ومال کے برابر قرار دیا‘ مسلمان اگر کسی ذمی کو قتل کرڈالتا تھا تو حضرت عمر فوراً اس کے بدلے میں مسلمان کو قتل کرادیتے تھے۔ مولانا شبلی نے روایت کی ہے کہ قبیلہ بکر بن وائل کے ایک شخص نے حیرہ کے ایک عیسائی کو مار ڈالا‘ حضرت عمر نے لکھ بھیجا کہ قاتل ‘ مقتول کے ورثاء کے حوالے کردیا جائے‘ چنانچہ وہ شخص مقتول کے وارث جس کا نام حسنین تھا‘ حوالہ کیا گیا اوراس نے اس کو قتل کر ڈالا۔ مال اور جائیداد کے متعلق حفاظت اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی تھی کہ جس قدر زمینیں ان کے قبضے میں تھیں‘ اسی حیثیت سے بحال رکھی گئیں جس حیثیت سے فتح سے پہلے ان کے قبضے میں تھیں‘ یہاں تک کہ ان مسلمانوں کو ان زمینوں کا خریدنا بھی ناجائز قرار دیا گیا۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ جو مشرق ومغرب کی نو زبانوں پر قدرت رکھتے تھے اور چار زبانوں‘ اردو‘ انگریزی‘ فرانسیسی اور عربی میں بلاواسطہ تحریر وتقریر کی خدمت سرانجام دیتے تھے‘ مطالعہ اور گفتگو کی اعلیٰ استعداد‘ جرمن‘ اطالوی‘ فارسی‘ ترکی اور روسی زبانوں میں بھی حاصل تھی‘ آپ ایک نسطوری عیسائی کے خط کے جواب میں جو اس نے اپنے دوست کو لکھا تھا‘ اپنے مقالہ ”عمر بن الخطاب“ (مشمولہ اردو دائرہ معارف اسلامیہ) میں لکھتے ہیں:
”یہ طائی (عرب) جن کو اللہ نے آج کل حکومت دی ہے‘ ہمارے بھی مالک بن گئے ہیں‘ لیکن وہ عیسائی مذہب سے جنگ نہیں کرتے ‘ بلکہ وہ ہمارے ایمان کی محافظت کرتے ہیں‘ ہمارے پادری اور مقدس لوگوں کا احترام کرتے ہیں اور ہمارے گرجاؤں اور راہب خانوں کو عطیے دیتے ہیں“۔
مال گزاری اور جزیہ کے بارے میں حضرت عمر بڑے محتاط رہتے تھے‘ اول یہ حساب مقامی زبانوں میں مرتب کئے جاتے‘ نیز ان کی وصولی کے لئے غیر مسلموں ہی کو عریف (ماہرین) مقرر کیا جاتا تھا۔ اس کے باوجود ہر سال ٹیکس کی وصولی کے بعد ہر صوبے سے وہاں کے ٹیکس دہندوں کا ایک وفد مدینے بلایا جاتااور ا س کا اطمینان کیا جاتا کہ وصولیوں میں ظلم نہیں ہوا۔ مولانا شبلی نعمانی نے اس ضمن میں یہ وضاحت بھی کی ہے کہ یہ وفود دس دس افراد (زمینداروں) پر مشتمل ہوتے تھے اور حضرت عمر ان سے چار دفعہ بتاکید قسم لیتے تھے کہ مال گزاری کے وصول کرنے میں کچھ سختی تو نہیں کی گئی۔ جان ومال اورجائیداد کے متعلق جو حقوق ومراعات ذمیوں کو دیئے گئے تھے‘ وہ صرف زبانی کلامی نہ تھے‘ بلکہ نہایت سختی سے ان کی پابندی کی جاتی تھی۔ مثلاً شام کے ایک کاشت کار نے شکایت کی کہ اہلِ فوج نے اس کی زراعت کو پامال کردیا ہے تو حضرت عمر نے اس پر دس ہزار دراہم کا معاوضہ عائد کیا۔ حضرت عمر کی رعایا پروری اور مذہبی روا داری اس بنیادی اصول پر مبنی تھی کہ ملکی حقوق اور مراعات میں ذمیوں اور مسلمانوں میں کوئی امتیاز نہ کیا جائے۔ محصولات کے بارے میں بھی یہی طرزِ عمل اختیار کیا گیا۔ اگر ذمیوں سے جزیہ اور عشور لیا جاتا تھا تو مسلمانوں سے بھی زکوة وعشر حاصل کیا جاتا تھا‘ اگر اپاہج‘ ضعیف اور نادار مسلمانوں کے وظائف مقرر تھے تو اسی طرح کی مراعات ذمیوں کو بھی حاصل تھیں شاہ ولی اللہ نے ”ازالة الخفا عن خلافة الخلفاء“ میں لکھا ہے کہ:
” حضرت عمر کا گزر ایک مکان پر ہوا جس کے دروازے پر ایک بوڑھا اندھا شخص سوال کررہا تھا‘ آپ نے پاس جاکر اس کی پیٹھ پر ہاتھ رکھا اور دریافت کیا کہ تجھے کس چیز نے بھیک مانگنے پر مجبور کیا‘ اس نے کہا جزیہ نے‘ بڑھاپے نے اور ضرورت نے‘ آپ اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر تک لے گئے اور گھر میں سے کچھ لاکر اسے دیا۔ بعد ازاں داروغہ بیت المال کو بلا کر آپ نے فرمایا۔ ”اگر ہم نے اس کی جوانی میں مال کھایا اور بڑھا پے میں ہم نے اسے ذلیل کیا تو ہم نے کچھ بھی انصاف نہیں کیا پھر آپ نے اس کا جزیہ معاف کردیا“۔
اسی طرح ایک موقعہ پر جب آپ شام سے واپس آرہے تھے تو آپ نے ایک ایسی قوم کا جزیہ معاف کردیا جو اس کی ادائیگی سے معذور تھی‘ اس واقعہ کو شاہ ولی اللہ‘ مولانا شبلی نعمانی کے علاوہ شاہ معین الدین ندوی نے بھی نقل کیا ہے۔ اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں یہ بات لائق توجہ ہے کہ اگر ذمیوں نے کبھی سازش یا بغاوت کی تب بھی حضرت عمر نے ان مراعات کو ملحوظ رکھا اور حالات کو معمول پر لانے کا پورا پورا موقعہ فراہم کرتے۔
مولانا شبلی نعمانی نے اس ضمن میں ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ:
”شام کی سرحد پر عربسوس کے لوگوں نے رومیوں سے سازش کی تو آپ نے وہاں کے حاکم عمر بن سعد کو لکھا کہ جس قدر ان کی جائیداد‘ زمین‘ مویشی اور اسباب ہیں سب کو شمار کرکے ایک ایک چیز کی دو چند قیمت دے دو اور ان سے کہو کہ کہیں اور چلے جائیں‘ اگر اس پر راضی نہ ہوں تو ان کو ایک برس کی مہلت دے دو‘ اس کے بعد جلا وطن کردو“۔
آج کوئی یورپی قوم اس عفو ودرگزراور مصالحت کی کوئی نظیرپیش کر سکتی ہے؟ ایک جمہوری اور شخصی طریق حکومت میں جو چیز امتیاز پیدا کرتی ہے وہ عوام کی مداخلت ہے‘ جس قدر رعایا کو دخل دینے کا حق زیادہ ہوگا اسی قدر اس میں جمہوریت کا عنصر زیادہ ہوگا۔ حضرت عمر ہمیشہ ان امور میں جن کا تعلق ذمیوں سے ہوتا تھا‘ مشورہ اور رائے لیتے تھے۔ عراق کے بندوبست میں عجمی رئیسوں (پارسی اور عیسائی) کو مدینہ بلا کر مال گزاری کے حالات دریافت کرتے تھے‘ اسی طرح مصر کے انتظام کے وقت وہاں کے گورنر کو لکھا کہ مقوقس (سابق حاکم مصر) سے خراج کے بارے میں رائے لو‘ اس پر بھی تسلی نہ ہوئی تو ایک واقف کار قبطی کو مدینے میں طلب کیا اور ا س کی رائے معلوم کی۔ ان حالات وواقعات کی روشنی میں یقین کیا جاسکتاہے کہ حضرت عمر کے دور خلافت میں غیر مسلموں (ذمیوں) کی جان‘ مال‘ عزت وآبرو اور مذہب کا اسی قدر استحفاظ کیا جاتا جس قدر مسلمان کی عزت وناموس کا۔ حتی کہ ان کی نسبت کسی قسم کی تحقیر کا لفظ استعمال کرنا بھی نہایت ناپسندیدہ خیال کیا جاتا تھا۔
شائع شدہ جامعۃ العلوم الاسلامیہ کی ویب سائیٹ
إرسال تعليق