میں جب اپنے فہم اور شعور کی پرائمری میں تھا تو بہت ساروں کو اس سادہ سی بنیاد پر غدار سمجھتا تھا کہ پاکستان کے قیام کی بنیاد اسلام ہے اور جو اسلام کے نفاذ کا مخالف ہے وہ اصل میں پاکستان کا مخالف ہے، میں یہ بھی سمجھتا تھا کہ مولوی کو وہی برا کہتا ہے جو اصل میں اسلام کو برا کہنا چاہتا تھا، جب وہ ڈر کے مارے اسلام کو برا نہیں کہہ پاتا تو اپنا غصہ مولوی کے خلاف نکال لیتا ہے مگر جوں، جوں سب سے بڑا استاد زمانہ مجھے پڑھاتا چلا گیا، مجھے اندازہ ہوتا چلا گیا کہ یہاں سچ ایک نہیں ہوتا، ایک ہمارا سچ ہوتا ہے اور ایک دوسروں کا سچ ہوتا ہے اور اب میں ان دونوں کو ملا کے اصل سچ ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہوں۔ مجھے یہ تسلیم کرنے میں عار نہیں کہ میں جناب نجم سیٹھی کو غدار ہی سمجھتا تھا، میں پنجاب اسمبلی پریس گیلری کمیٹی کا سیکرٹری تھا جب انہوں نے انڈیا جا کے پاکستان کے بارے کچھ ایسی باتیں کیں جنہیں نظریہ پاکستان کے علمبردار اخبار نے بہت واضح طور پر شائع کیا، مجھے ان باتوں پر بہت غصہ آیا اور میں نے نجم سیٹھی بارے بھارت نواز اور غدار ہونے کی رائے قائم کرلی، اس وقت نظریہ پاکستان کے محافظ ہی نہیں، پاکستان کی حکومت بھی برہم تھی ، میرا بطور سیکرٹری پریس گیلری کمیٹی ایک بیان بھی پی ٹی وی نے اپنے قومی خبرنامے میں نشر کر دیا ۔۔ ۔ وقت گزرتا گیا، جناب نجم سیٹھی بسنت کے بہت بڑے حامی تھے اور میں بسنت سے ہونے والی ہلاکتیں اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد مخالف تھا، ایسے میں ہمارے ایک فوٹو گرافر وسیم نیاز کے گلے پر ڈور پھر گئی۔ برادرم روف طاہر پریس گیلری کے صدر تھے مگر صدارت کی مدت شروع ہونے کے کچھ عرصے بعد ہی ممتاز اردو جریدے اردو میگزین کی ادارت سنبھالنے سعودی عرب روانہ ہو چکے تھے۔ میں نے فیصلہ کیا کہ اس واقعے کے خلاف پنجاب اسمبلی کی پریس گیلری سے بائیکاٹ کیا جائے۔ بائیکاٹ ہو ا اور اس وقت کی حکمران جماعت مسلم لیگ قاف کے صوبائی جنرل سیکرٹری اور صوبائی وزیر چودھری چودھری ظہیرالدین نے مذاکرات کئے۔ میر اموقف تھا کہ میرے ساتھی دن بھر رپورٹنگ اور فوٹوگرافری کی ذمہ داریاں اد اکرنے کے لئے سڑکوں پر مارے مارے پھرتے ہیں، اگر ایسے ہی ڈوریں پھرتیں اور گلے کٹتے رہے تو ایسا نہ ہو اس موسم بہار کے بعد بہت سارے صحافیوں کے گھروں میں مستقل خزاں ہوجائے۔
چودھری ظہیرالدین نے ہماری یہ تشویش وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی تک پہنچانے کا وعدہ کیا، انہیں شائد بہانے کی ہی ضرورت تھی، اسی روز بسنت پر پابندی کا اعلان ہو گیاجو ایک برس پہلے پرویز مشرف کے شوق کی وجہ سے بھرپور طریقے سے منائی جا چکی تھی۔ اس موقعے پر جناب نجم سیٹھی کے انگریزی اخبار نے پریس گیلری کمیٹی اورا سکے عہدیداروں کے خلاف زبردست قسم کا اداریہ تحریر کیا اور بطور عہدے دار میرے خوب لتے لئے۔۔۔ وقت گزرتا گیا اور جب نجم سیٹھی پنجاب کے
نگران وزیراعلیٰ بنے تو انہوں نے لاہور کی رونقیں
لوٹانے کے لئے بسنت منانے کا اعلان کر دیا، انہوں نے تمام سیکورٹی اداروں سے پوچھا کہ کیا وہ بغیر کسی ماں کی گود اجاڑے اس خوبصورت اور رنگا رنگ تہوار کا انعقاد یقینی بنا سکتے ہیں تو انہیں ہر طرف سے نفی میں جواب ملا۔ پھر انہوں نے وہی فیصلہ کیا جو میری بہت برسوں سے رائے تھی کہ ہم بطور معاشرہ اتنے غیر ذمہ دار ہو چکے ہیں کہ قانون کے مطابق تفریح بھی نہیں کر سکتے۔ دوسری طرف رفتہ رفتہ مجھے اندازہ ہوا کہ صرف اسلام کا نام لینے والے گو اس ملک کی ٹھیکیداری نہیں دی جا سکتی ، اگر کوئی طبقہ بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کر کے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن دیکھنا چاہتا ہے تو اسے یہ رائے رکھنے کا حق بھی ہے اور اس کے پاس یہ موثر سوال بھی موجود ہے کہ ہم نے اب تک تین، چار خونریز جنگیں کرنے کے باوجود کیا حاصل کیا ہے۔ یوں بھی آہستہ آہستہ میرے اندر بہتے ہوئے خون سے نفرت بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ میں طالبان کی طرف سے معصوم لوگوں کے خون بہانے کا علی الاعلان مخالف تھا ،ہوں اور رہوں گا مگر اب شمالی وزیرستان میں آپریشن کے بعدوہاں بہتے ہوئے لہو اور گرتے ہوئے گھروں پر بھی رونا آ رہا ہے ۔ کاش یہ سب کچھ امن و امان کے ذریعے ہی ممکن ہوجاتا، اگر طالبان واقعی شریعت لانا چاہتے ہیں تو میر ایقین ہے کہ یہ ہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مثالی کردار کا عملی نمونہ بن کے بموں اور بندوقوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر طور پر لا سکتے ہیں۔
انتخابا ت ہو گئے تو نجم سیٹھی پریشان تھے کہ اپوزیشن کی طرف سے پنجاب میں دھاندلی کا الزام لگایا جا رہا ہے، امجد بھٹی صاحب کا فون آیا اور میں ایک دوپہر ان کے ساتھ جا کے بیٹھ گیا۔ میں نے لاہور کے تقریباً ہر حلقے میں ایک بہت ہی مشکل پروگرام ” امیدوار“ کے نام سے کیا تھا اوراس کے ساتھ ساتھ الیکشن ٹرانسمیشن کا بھی حصہ رہا تھا، میرا مشاہدہ یہی ہے کہ کوئی دھاندلی نہیں ہوئی،مسلم لیگ نون سے کہیں زیادہ تحریک انصاف کے کارکن ایکٹو بھی تھے اور جذباتی بھی، ایسے میں کسی پولنگ اسٹیشن پر مسلم لیگ نون کے امیدواروں کی طرف سے جعلی ووٹوں کا بھگتایا جانا تقریباً ناممکن کام تھا۔ یہ بات تو پی ٹی آئی کے دوست بھی تسلیم کرتے ہیں کہ دن بھر پولنگ درست ہوئی،اس کے بعد گنتی میں بھی انہیں کوئی شکایت نہیںاور ان کے پولنگ ایجنٹ تمام رزلٹ دستخط کروا کے وصول کر کے لے گئے تھے، اب ان کا کہنا تھا کہ نتائج پریذائیڈنگ افسران سے ریٹرننگ افسرتک بھیجتے ہوئے تبدیل کئے گئے، اب بائیو میٹرک سسٹم اور انگوٹھے کے نشان تو بہت دور کی بات ہیں، تحریک انصاف اپنے کسی بھی امیدوار سے تمام پولنگ بوتھوں سے لئے ہوئے دستخط شدہ رزلٹ لے، ووٹوں کو جمع کرے اور اگر فرق ہو تو بتا دے۔ میرا اب بھی یہی خیال ہے کہ نجم سیٹھی کے پاس پنکچر لگانے کا کوئی سامان ہی نہیں تھا اور دوسری طرف کیا یہ چھوٹا چیلنج ہے کہ تحریک انصاف کے قائد جس ٹیپ کا دعویٰ کر رہے ہیں، وہ واقعی ان کے پاس ہے تو منظرعام پر لے آئیں، نجم سیٹھی خود کشی کر لیں گے، اتنے یقین کے ساتھ دعویٰ کوئی سچ بولنے والا ہی کر سکتا ہے۔
آگے بڑھتے ہیں، نجم سیٹھی کرکٹ بورڈ کے چئیرمین بنائے گئے،ذاتی طور پر تومیرا خیال یہی ہے کہ ایک صحافی کو ایسی ذمہ داریوں سے گریز کرنا چاہئے خاص طور پر جس کام کا تجربہ بھی نہ ہو۔ سوال یہ ہے کہ جب پرویز مشرف سے آصف علی زرداری تک، کرکٹ بورڈ کے چئیرمین اپنی مرضی سے لگاتے رہے تو یہ حکومت کا اختیار تھا مگر جیسے ہی نواز شریف نے ایک صحافی کو چئیرمین بنا یا، وہ متنازعہ ہو گیا، کیا ماضی کے سب نٹ کھٹ بٹ بھی متنازعہ قرار پائے تھے۔ مجھے اس ایشو پر پی سی بی کا آئین معطل کرنے کے اقدام کے سوا کوئی دوجااعتراض نہیں، یہ کام آئین کے مطابق ہی ہونا چاہئے تھا جیسے ماضی میں مشرف اور زرداری کرتے رہے ۔اب آگے بڑھتے ہوئے میں اصل بات کہنا چاہتا ہوں کہ اگر نجم سیٹھی واقعی پنکچر لگا سکتے ہیں تو انہیںایل آر سی یعنی لاہور ریجنل کرکٹ ایسوسی ایشن کی پھٹی ہوئی ٹیوب کو پنکچر لگانا چاہئے، عالمی سطح پر اگر پاکستانی کرکٹ کو بگ تھری نے مصیبت میں ڈالا تو مقامی سطح پر ”بگ ٹو“ یعنی خواجہ ندیم اورایزد سید بہت بڑا مسئلہ بنے ہوئے ہیں، ان دونوں گروپوں نے اپنے اپنے کلبوں کو تقسیم کر رکھا ہے، الیکشن ہوئے ہیں مگر ووٹرز عدالت میں چیلنج اورووٹ ایک تجوری میں بند ہیں۔ یہ دونوں کرکٹ سے محبت ، کرکٹ کی خدمت کرنے والے ہیں مگر ان کی باہمی کشمکش نے لاہور کی کرکٹ کو باٹم پر لاکھڑا کیا ہے، ٹیم قائد اعظم ٹرافی سے بھی آو¿ٹ ہوئی،اب حال یہ ہے کہ ایک گروپ کسی ٹورنامنٹ کا اعلان کرتا ہے تو دوسرا بائیکاٹ کر دیتا ہے۔ عبوری چئیرمین ایزد سید کا کہنا ہے کہ بائیکاٹ کی سیاست ختم کی جائے کہ کھیل میں سیاست نہیں ہونی چاہئے جبکہ خواجہ ندیم کا موقف ہے کہ ایل آر سی اے کے انتخابات کے نتائج کا اعلان ہونا چاہئے کہ اگر منتخب آئینی باڈی ہو گی تو وہ سپانسر شپ بھی لے کر آئے گی ۔ یہاں کوچز کے مافیا کا بھی سنجیدگی سے نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔ اعتراض یہ بھی ہے کہ لاہور ریجن کا
کپتان سرگودھا کا اور کوچ ساہیوال کا ہے ،طاہر شاہ جیسے فرسٹ کلاس کرکٹرکے اخبارات میں احتجاجی خطوط شائع ہو رہے ہیں مگر کوئی نوٹس لینے والا نہیں۔ اس سے پہلے کہ معاملہ لاہور میں کرکٹ کھیلنے والے وزیراعظم نواز شریف تک پہنچے ،، نجم سیٹھی پی سی بی کو جلد از جلد نہ صرف ایک متفقہ اور قابل عمل آئین دیں بلکہ لاہور سمیت باقی بہت ساری ریجنوں کی پھٹی ہوئی ٹیوبوں میں پنکچر لگا دیں تاکہ کرکٹ کی گاڑی مقامی سطح پر توروانی سے چلنے لگے ۔۔۔ افسوس !کرکٹ کی قومی گراونڈز کے رستے تو پہلے ہی ہمارے شریعتی مہربانوں نے بند کر رکھے ہیں۔
اشاعت روزنامہ پاکستان 23 فرورئ 14
إرسال تعليق