اردو غزل: کچھ لوگ جو سوار ہیں کاغذ کی ناؤ پر



کچھ لوگ جو سوار ہیں کاغذ کی ناؤ پر
تہمت تراشتے ہیں ہؤا کے دباؤ پر

موسم ہے سرد مہر ، لہو ہے جماؤ پر
چوپال چپ ہے ، بھیڑ لگی ہے الاؤ پر

سب چاندنی سے خوش ہیں ، کسی کو خبر نہیں
پھاہا ہے مہتاب کا گردوں کے گھاؤ پر

اب وہ کسی بساط کی فہرست میں نہیں
جن منچلوں نے جان لگا دی تھی داؤ پر

سورج کے سامنے ھیں نئے دن کے مرحلے
اب رات جا چکی ہے گزشتہ پڑاؤ پر

گلدان پر ہے نرم سویرے کی زرد دھوپ
حلقہ بنا ہے کانپتی کرنوں کا گھاؤ پر

یوں خود فریبیوں میں سفر ہو رہا ہے طے
بیٹھے ہیں پل پہ اور نظر ہے بہاؤ پر

Post a Comment

أحدث أقدم