اِتنا نہ یاد کر اْسے تھکتی ہے یاد بھی
اے دل ذرا سنبھل کہ بہکتی ہے یاد بھی
دْوری تو اور پھول کھلاتی ہے قرب کے
ویرانے میں تو اور مہکتی ہے یاد بھی
تیرے ہی پاس ہوگا مرا گمشدہ سکوں
تیرے ہی اردگرد بھٹکتی ہے یاد بھی
سہما ہوا ہے دل کسی خوف ِگزشتہ سے
اب تو مرے بدن میں دھڑکتی ہے یاد بھی
بینائ تو غبار ہوئ انتظار میں
آنکھوں میں میری اب تو کھٹکتی ہے یاد بھی
کیسا ہجوم ِ درد ہے اے دل کہ ان دِنوں
دم بھی الجھ رہا ہے اٹکتی ہے یاد بھی
شاید وہ لوٹ آۓ کسی طور باغ میں
طائر پکارتے ہیں چہکتی ہے یاد بھی
إرسال تعليق