جس شب وُہ شوخ گُل مرا مہمان بن گیا
میں خود غریب خانے کا دَربان بن گیا
سنجیدگی کی چہرے پہ چادَر تو تان لی
پر دِل ہی دِل میں آخری شیطان بن گیا
میری شریر نظروں کی پرواز تھی بلند
دیکھا جو اُس نے گھور کے اِنسان بن گیا
چومی ہُوئی کلی جو اُسے چومنے کو دی
شرم و حیا کا رُخ پہ گلستان بن گیا
شوخی سے بولے لکھو غزل ہاتھ چوم کر
پر لکھتے لکھتے حُسن کا دیوان بن گیا
سجدہ کرا کے مجھ سے پڑھی خود نمازِ شکر
کافِر بنا کے مجھ کو مسلمان بن گیا
اِک مہ جبیں کے ’’پاؤں‘‘ پہ بیعت کا ہے اَثر
ہر شوخ حُسن میرا قَدَر دان بن گیا
پازیب دِن میں ڈُھونڈ کے لوٹانے جب گیا
وُہ چونکا ایک پل کو پھر اَنجان بن گیا
پڑھ پڑھ کے ہنس رہے ہیں وُہ اَپنی شرارتیں
میرا کلام حُسن کی مسکان بن گیا
اُس اَپسرا نے جونہی خریدی مری کتاب
شہزاد قیس ذوق کی پہچان بن گیا
إرسال تعليق