مبینہ چور اور مستند چور
صادق رضوی . اشاعت ڈان نیوز بلاگز
میرا دوست لاڑکانہ سے مچھلی لایا تھا۔ امی کی فرمائش پر مچھلی کو ایک دکان سے باربی کیو کروانے دینے گیا۔ واپسی پر ایک گلی میں رش دیکھا تو گاڑی سائیڈ پر لگائی اور باہر اتر آیا۔
خواتین سمیت کوئی ڈیڑھ سو کے قریب بندے جمع تھے۔ گلی میں اندھیرا تھا اور معاملہ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ قریب پہنچا تو لوگوں نے دو لڑکوں کو گھیرا ہوا تھا۔ ایک لڑکے کی شرٹ پھٹی ہوئی تھی اور وہ مستقل رو رہا تھا۔ اس کا ساتھی ہاتھ اٹھا اٹھا کر لوگوں کو رسول اللہ کا واسطہ دے کر معافی مانگ رہا تھا۔ دونوں کی شکل سے لگ رہا تھا کہ ٹھیک ٹھاک مار لگی ہے۔
میں نے قریب کھڑے ایک بزرگ سے پوچھا کہ آخر ماجرا کیا ہے؟ جواب آیا چور پکڑے گئے ہیں۔ گھر میں گھس کر چوری کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ شور ہوا تو علاقہ مکینوں نے پکڑ لیا۔
اچانک کچھ جذباتی نوجوان ان دو مبینہ چوروں کی چیکنگ کرنے لگے اور ان کے شناختی کارڈ سے لے کر موٹرسائیکل تک ہر چیز کھنگال کر رکھ دی۔ دونوں چور روتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ہم کہیں نہیں جا رہے ہمیں نہ مارو ہم سے جو پوچھنا ہے پوچھ لو، ہم نے چوری نہیں کی۔ مجمعے کا رویہ انتہائی خوفناک تھا۔ وہ مستقل چوروں کو دھمکیاں دے رہے تھے۔ دھکے دے رہے تھے۔
پھر ایک سمجھدار آدمی نمودار ہوا اور ان سے آرام سے بات کرنے لگا۔ پوچھا کہ تم دونوں یہاں کیا کرنے آئے تھے۔ پہلے نے بتایا کہ ہم کسی عزیز کے پاس ملنے آئے، وہاں سے گھر جانے لگے تو نماز پڑھنے کا خیال آیا۔ بھوک بھی لگی تھی۔ مسجد میں نماز پڑھی۔ باہر نکلے تو بھوک بڑھ چکی تھی۔ جیب میں پیسے نہیں تھے۔ گھر میں رونق لگی تھی۔ ہم نے رک کر پوچھا کیا کھانا ملے گا۔ جواب آیا کہ ہاں۔ ہم رک گئے۔ اندر شاید دعوت چل رہی تھی۔ ہم کھانے کے انتظار میں رکے رہے۔ کافی دیر ہوئی کوئی واپس نہ آیا تو دروازے تک یہ دیکھنے آئے کہ کوئی اہل خانہ ملے تو کھانے کا یاد دلائیں مگر الٹا ہمیں چور بنا کر مار مار کے برا حال کردیا ہے۔ آپ ہمارے شناختی کارڈ چیک کرلو۔ ہمارے فون ہم سے چھین لیے ہیں۔ ہمیں فون دو ہم گھر سے کسی کو بلا لیں تاکہ آپ لوگوں کی تسلی ہوجائے۔ ہم غریب ہیں لیکن چور نہیں۔ ہم ایک دکان پہ کافی عرصے سے کاریگر ہیں، وہاں کے مالک سے پوچھ لیں۔ اللہ رسول کا واسطہ ہمیں نہ مارو ہم چور نہیں ہیں۔ ہم کہیں نہیں بھاگ رہے آپ لوگ تسلی کرلیں۔
اتنی دیر میں پھر سے ایک نوجوان آگے بڑھا، اور دونوں کو تھپڑ رسید کردیا۔ اور معاملہ دوبارہ گرم ہوگیا۔ دونوں مبینہ چور بار بار اہل خانہ میں سے کسی کی طرف اشارہ کر کے کہہ رہے تھے کہ بھائی سے پوچھو کیا ہم نے کھانا نہیں مانگا تھا؟ کیا ہم نے نہیں کہا تھا ہم بھوکے ہیں اگر کھانا ہے تو کھلا دیں۔ لیکن ان کی سننے والا کوئی نہیں تھا۔ وہ مار کھائے جا رہے تھے اور میں نفی میں سر ہلاتا جا رہا تھا۔
مجمعے میں سے کسی نے پولیس کو بلانے کا مشورہ دیا۔ سب اپنی بھڑاس نکال چکے تھے تو بالآخر پولیس کو کال کر ہی لی گئی اور میں مزید مایوس ہوکر واپس گاڑی میں آبیٹھا۔
میری مایوسی کی دو وجوہات تھیں۔ ایک تو یہ کہ وہ لڑکے چور ہیں یا نہیں، اس کا فیصلہ لوگوں نے نہیں کرنا تھا۔ وہ حلیے سے بالکل چور نہیں لگ رہے تھے اور ان کا لب و لہجہ بتا رہا تھا کہ گھریلو لڑکے ہیں۔ اور اگر وہ چور تھے بھی تو ان کے کپڑے پھاڑ کر ننگا کردینا مناسب نہیں تھا۔ میں جس علاقے میں تھا وہ پڑھے لکھے امیروں کا علاقہ تھا اور ان کا یہ رویہ کہیں سے انہیں زیب نہیں دے رہا تھا۔ افسوس کرنے کی دوسری وجہ وہ لوگ تھے جنہیں فون کرکے بلایا گیا تھا۔ یعنی ہمارے پیٹی بھائی۔ اب یہ لڑکے چور تھے یا نہیں، دونوں صورتوں میں پیسے کھلا کر باہر آ ہی جاتے۔ میں نے اپنے صحافتی کریئر میں ایسے درجنوں کیسز دیکھے ہیں جن میں بے قصور مجبوراً پیسے دے کر آزادی خریدتے ہیں اور قصوروار خوشی سے پیسے دے کر باہر آجاتے ہیں۔
میری اپنی سوچ میں تضاد تھا۔ ایک طرف میں عوام کے خودساختہ انصاف کرنے کے رویہ سے مایوس تھا تو دوسری طرف انصاف کرنے کے اہل لوگوں کی نااہلی اور بے ایمانیوں سے بد دل تھا۔ پاکستانی عوام درحقیقت کنفیوژ ہو چکے ہیں۔ ان کے پاس اور کوئی چارہ بھی نہیں۔ وہ انسانیت کی باتیں کرتے کرتے انسانیت بھول جاتے ہیں۔ وہ اپنا غم و غصہ آپس میں ہی نکال کر انصاف ڈھونڈتے ہیں۔ وہ مبینہ چوروں کو مستند چوروں کی گرفت میں دینے پر مجبور ہیں۔
اس کے برعکس جو لوگ مستند چور ہیں، جو دہائیوں سے عوام کے خون پسینے کی کمائی پر کبھی قوم کے نام پر کبھی ملک کے نام پر اور کبھی سلطنت کے نام پر ڈاکے ڈال رہے ہیں، ان کے لیے ہم خوشی سے آوے ہی آوے کے نعروں پر بھنگڑے ڈالتے ہیں۔ ان کے تمام گناہوں اور اربوں روپوں کی کرپشن کو وسیع تر قومی مفاد میں معاف سمجھتے ہیں، لیکن کوئی غریب کھانا چرا لے تو ہم اسے مار مار کر اس کی بھوک ختم کر دیتے ہیں۔ ہیں نہ ہم کنفیوژن کی اعلیٰ ترین مثال؟
Published of the courtesy Dawn News
إرسال تعليق