’لڑائی میں شمولیت پاکستان کے لیے تباہ کن‘
پاکستان میں نواز شریف کی حکومت نے سعودی عرب کی یمن کے خلاف کارروائیوں کی حمایت کی ہے اور سعودی عرب کو کسی قسم کے خطرے کی صورت میں بھرپور عملی امداد مہیا کرنے کا اعلان کیا ہے۔
دوسری جانب ملک کی سیاسی جماعتوں اور سیاسی اور دفاعی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس لڑائی میں شامل ہونا پاکستان کے لیے غیر دانشمندانہ اور تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔
یمن کے اندرونی سیاسی اختلافات جو حوثی قبائل اور صدر عبد ربہ منصور حادی کے حامیوں کے درمیان مسلح جدوجہد کی صورت اختیار کر گئے ہیں، ایران اور سعودی عرب کی مداخلت اور خطے کی مجموعی صورت حال کی وجہ سے واضح طور پر مسلمانوں کے دو مختلف مسالک کے درمیان جنگ کی صورت میں پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔
اس انتہائی تباہ کن صورت حال میں سعودی عرب کی مرہون منت پاکستان کی موجود سیاسی قیادت نے سعودی عرب کا بھرپور ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے حالانکہ پاکستان کی دیگر سیاسی جماعتیں، حتیٰ کہ نظریاتی طور پر ایک دوسرے سے انتہائی دور جماعت اسلامی اور عوامی نیشنل پارٹی نے بھی ایسے کسی اقدام کی مخالفت کی ہے۔
پاکستان کے مستقبل اور خارجہ پالیسی کے اس اہم معاملے پر کل جماعتی کانفرنس یا پارلیمان کے اندر موجود سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیے بغیر وزیر اعظم نواز شریف نے فوج کے سربراہ کے ساتھ مختصر مشاورت کے بعد سعودی عرب کا بھرپور ساتھ دینے کا اعلان کیا جو ان کے فیصلہ سازی کے انداز سے بالکل مختلف اور ان کے ناقدین کے لیے حیران کن ہے۔
ماضی میں سعودی عرب کے ساتھ دو دفاعی معاہدے تھے ایک ختم ہو گیا ہے اور دوسرا قائم ہے
بی بی سی اردو سروس کو انٹرویو دیتے ہوئے دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر محمد سعد نے کہا کہ ماضی میں پاکستان کو ’پراکسی وار‘ کی، چاہے وہ کشمیر میں اس کی اپنی ہو یا افغانستان میں امریکہ اور سعودی عرب کی، بھاری قیمت ادا کرنی پڑی ہے۔
بریگیڈیئر سعد کے مطابق فوج کے اندر بھی سعودی عرب کے لیے نرم گوشہ پایا جاتا ہے جبکہ ایران کو افغانستان کے معامالات کی وجہ سے علاقائی حریف کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کا کہنا ہے کہ اس جنگ میں ملوث ہونے کی وجہ سے پاکستان پر نظریاتی اثرات بھی مرتب ہو سکتے ہیں جو ملک اور قوم کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوں گے۔
اس جنگ میں ملوث ہونے کی صورت میں ملک کے اندر دور رس فرقہ وارانہ اور مذہبی اثرات کے علاوہ یہاں اور بھی کئی اہم سوالات جنم لیتے ہیں۔ کیا ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کی فوج ملک کے اندر کارروائیوں میں بری طرح پھنسی ہوئی ہے سعودی عرب کی جنگ میں اپنے فوجی بھیج سکتی ہے اور اگر بھیج سکتی ہے تو کتنے؟
اس سوال کے جواب میں حسین حقانی کا کہنا تھا کہ سعودی ذرائع ایک ہزار سے تین ہزار زمینی دستوں کی بات کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان (اس مقصد کے لیے) ایک یا دو بریگیڈ فارغ کر سکتا ہے۔
بریگیڈیر سعد نے کہا کہ پاکستان کو زمینی فوج بالکل نہیں بھیجنی چاہیے۔ انھوں نے کہا اس تعاون کو فضائی اور بحری فوج تک محدود رکھنا دانشمندی ہو گی۔
ان کے خیال میں پاکستان میں جاری فوجی کارروائیوں کی وجہ سے پاکستان فوج کو پہلے ہی انفنٹری یا پیادہ فوجی دستوں کی زبردست کمی کا سامنا ہے۔
بریگیڈیر سعد کا کہنا ہے کہ یمن کا بحران جلد ختم ہونے والا نہیں اورکسی ’ایگزٹ سٹریٹجی‘ یا نکلنے کے راستے کا تعین کیے بغیر جنگ میں داخل ہونا انتہائی غیر دانشمندی ہو گا۔
خبربحوالہ بی بی سی
إرسال تعليق