کینیا( وائس آف پاکستان ویب ڈیسک) بادشاہ چاہئے جنگل کا ہو یا ملک جب تک وہ انصاف کرتا رہے گا ، ملک کا ہواسے عوام کی حمایت اور جنگل کا ہو تو جانوروں کی ہمدردی و احترام حاصل رہے گا۔ یہی بادشاہ جب عوام کا پیٹ بھی پہاڑ کر کھانے لگے ، طاقت کے نشے میں مست ہوجائے اور جب چاہئے اور جہاں چاہئے حملہ کرےتو…. برداشت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے نا۔
کینیا کے ایک جنگل میں بھی ایک بدمست شیر کے ساتھ یہی ہوا۔ شیر نے جب بھینوں کے جھنڈ کا پیچھا کیا اور پیچھے رہ جانے والے بھینس پر حملہ کیا تو سارے بھینس مل کر شیر پر ایسا حملہ آور ہوئے کہ شیر کی تو خشک ہوگئی۔۔۔ شیر بمشکل سوکھے درخت پر چڑھ کر جان بچائی۔ قابل غور بات یہ ہے بھینس تعداد میں کچھ زیادہ بھی نہ تھے، محض چار یا پانچ تھے۔ حملہ آور شیر پر جب پلٹ کر دھاوا بول دیا تو شیر بھی جان بچانے کے لئے بھاکنا شروع کیا اور آگے آگے شیر پیچھے پیچھے بھینسیں… شیر کو جب جان کے لالے پڑگئے تو فوراً راستے میں آنے والے ایک سوکھے درخت پر چڑھ گیا۔ اور جان بچائی اور اس وقت تک درخت سے چپکا رہا جب تک کہ بھینسیں ادھر ادھر نہ ہوئیں۔
اپنے ملک کی صورتحال بھی کچھ اس طرح ہی ہے کہ ایک شیر اپنے خاندان کو لیکر ملک کا خون پی رہا ہے اور عوام ڈر کے مارے بھیکی بلی بنی ہوئی ہے۔
إرسال تعليق