ایک ایسی مختصر کہانی جو شاید آپ کی بھی تقدید بدل دے۔ حی علی الفلاح " اللّہ کا بلاوا " آگیا
موذن نے اللہ اکبر۔۔۔۔۔ حی الفلاح کہا ۔
بابا جی نے پکوڑوں کی کڑاہی کے نیچے شور مچاتے چولہے کو بند کیا ۔ اور بولے
" دوستو ! تھوڑا سا انتظار کر لو ، بلاوا آگیا ہے ۔ حاضری لگوا کے آتا ہوں "
میں ذاتی طور انکی سیدہی اور سادی باتوں سے بہت متاثر ہوں ۔ میں سوچ رہا تھا کہ اب ہمیں بھی دعوت ملے گی ۔ مگر بابا جی نے کسی سے کچھ نہیں کہا ۔ دو تین گاہک شائد جلدی میں تھے ، بڑبڑاتے چلے گئے ۔
" آپ کے دو تین گاہک چلے گئے ہیں "
میں نے بابا جی کے آتے ہی مژدہ سنایا ۔ انہوں نے سنی ان سنی کر دی ۔
" رزق حلال کی کوشش بھی عبادت ہے ، آپ گاہک فارغ کر کے بھی نماز پڑھ سکتے تھے "
بابا جی مسکراتے ہوئے بولے ۔
" میرے مالک نے کتنی محبت سے فلاح کی طرف بلایا ۔ میں رزق کی کی غرض سے رک کر فلاح کا موقع نہیں گنوانا چاہتا تھا ۔ رزق تو ملتا رہا ہے ملتا رہے گا - بیٹا کبھی اسکی آواز پر لپک کر تو دیکھو ، ساری لذتیں ایک طرف ، یہ لذت ایک طرف "
" رزق تو ہر دروازے پر اپنے وقت کے مطابق پہنچ جاتا ہے ۔ مگر فلاح کی آواز کسی کسی دل پہ دستک دیتی ہے ۔ کئی کان اسے قریب سے بھی نہیں سن پاتے ۔ دعا کرو اللہ وہ دل دے دے ، جس پر یہ آواز دستک دے ۔ یہ اللہ کی محبت کی آواز ہے بیٹا ۔"
میں اپنا دل ٹٹول رہا تھا ۔ آواز تو میں نے بھی سنی تھی اوروں نے بھی ۔ مگر دل پہ دستک نہیں ہوئی ۔ شائد اسی سبب ہم رزق پر سوچتے رہے ۔
کاپی
إرسال تعليق